اسلام آباد (آئی این پی)سینئر قانون دان اور سیاستدان چوہدری اعتزاز احسن نے حکومت کے جوڈیشل کمیشن بنانے پر سوال اٹھادیا۔ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے جج کو نامزد کر کے جوڈیشل کمیشن بنانا حکومت کا کام نہیں۔انہوں نے کہا کہ نجی گفتگو کی آڈیو لیکس خود ہی غیرقانونی ہیں، اس کمیشن کے ضوابط (ٹی او آرز)چیف جسٹس پاکستان کے گرد منڈلاتے ہیں۔
چوہدری اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ کال ریکارڈ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس میں کابینہ اور حکومت بھی جاسکتی ہے۔سینئر قانون دان نے یہ بھی کہا کہ پوچھتا ہوں حکومت چیف جسٹس کی رضامندی کے بغیر جج کو کمیشن کا سربراہ کیسے بناسکتی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ یہ پتا لگانا ضروری ہے کہ ٹیلیفون کالز ریکارڈ کون کرتا ہے، ٹی او آرز میں فون ریکارڈ کرنے والے سے متعلق کچھ شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی خیال تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن میں بیٹھنے سے انکار خود ہی کر دیں گے کیونکہ کمیشن کے ٹی او آرز میں زیادہ تر حصہ چیف جسٹس کی فیملی کے بارے نجی گفتگو ہے، جبکہ نجی گفتگو کی ٹیسٹنگ بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے 1998کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ٹیسٹنگ حکومت کی جانب سے ہو تو یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ پوری کابینہ اور اسمبلی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ آڈلو لیکس کے معاملے میں جوڈیشل کمیشن غیر آئینی و غیر اخلاقی ہے، کمیشن کا قیام اختیارات سے تجاوز ہے، جوڈیشری کے اختیارات چیف جسٹس کے پاس ہوتے ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر حاضر سروس جج کو لگانا ان کے اختیارات کو سلب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کا انتخاب ہی مضحکہ خیز ہے، کمیشن میں ایک سینئر سپریم کورٹ کے جج اور دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس موجود ہیں جبکہ ان کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ صرف سول جج کے برابر ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ لاہور کور کمانڈر ہائوس پر مظاہرین کے حملے اور نگران حکومت کا بیانیہ نہیں چل سکے،اب جو ویڈیوز آ رہی ہیں اس سے حقیقت واضح ہو رہی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہا جائے کہ مظاہرین کو روکنے سے اجتناب کیا گیا چاہے کور کمانڈر ہائوس جل جائے، یا کور کمانڈر اور اس کی فیملی بھی جل جائے کہ یہ بیانیہ لوگوں کو قبول نہیں ہو گا۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں