اسلام آباد(آئی این پی) پاکستان کے وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس آخری موقع ہے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرے، پہلی بار کورکمانڈر ہائوس میں توڑ پھوڑ ہوئی، پشاور میں ریڈیو پاکستان اور پبلک ٹرانسپورٹ کو جلایا گیا، عدالت کو دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے،
عمران خان کو فیصلہ کرنا چاہیے وہ سیاسی جماعت ہے یا دہشت گرد، اگرعمران خان مذمت نہیں کرتے یا لاتعلقی کا اعلان نہیں کرتے تو مطلب سیاسی جماعت نہیں دہشت گرد جماعت ہے، پھر اس کو ایک دہشت گرد جماعت کی طرح ٹریٹ کرنا ہوگا، یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے ہر ادارے پر حملہ کیا، حکومت میں آکر سلیکٹڈ راج قائم کیا، گزشتہ حکومت میں آئی ایس آئی کو مخالفین کے لیے استعمال کیا گیا، ہم اصولی طور پر کسی الیکشن کے خلاف نہیں ہیں، ہم سمجھتے ہیں اس کا مقابلہ نیب نہیں الیکشن کے ذریعے ہو گا۔ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات بشمول جی ایچ کیو اور جناح ہاؤس پر جس طرح حملہ کیا گیا ایسا کبھی بھی نہیںہوا اور یہ حملے انتہائی قابل مذمت ہیں۔ ملک بھر میں سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ قانجی املاک کو بھی تباہ اور جلایا گیا وہ گھنائونا فعل تھا۔تاریخ ہمیشہ یاد رہے گی جب شہید ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوئے تو لاہور سے پارٹی کے ایک جیالے نے احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگا دی لیکن ریاست کی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ جب 1986 میں جلاوطنی کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور آئیں تو قائد عوام کا قاتل زندہ اور ایوان صدر میں تھا۔ 30 لاکھ لوگ اپنے قائد کے استقبال کے لیے آئے اور کوئی بھی سیاسی جماعت ملکی تاریخ میں اتنا بڑا سیاسی اجتماع دوبارہ منعقد نہیں کر سکی۔ اگر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام کو شہید قائد عوام کے قاتل شہید شاہنواز بھٹوکے قاتل اور مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو پر ظلم ڈھانے والوں کی طرف اشارہ کیا ہوتا تو نتیجہ سب کے سامنے ہوتا اور کچھ نہ بچتا۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ میں نے ملک اور جمہوریت کی خاطر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے جنازے کو کندھا دیا ہے۔ اس دن لگنے والے نعرو کے جواب میں صدر زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر پاکستان کو بچا لیا تھا۔
میں نے اپنی والدہ کو دفنانے کے بعد ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ہم اس وقت بھی عوام کو اپنی والدہ کے قاتل پرویز مشرف تک پہنچا سکتے تھے۔ اگر صدر زرداری اتحاد کا نعرہ نہ لگاتے، ہم انتقام لیتے تو کیا پاکستان بچ جاتا؟ کیا آج ہم اس اسمبلی میں بیٹھیں ہوتے؟ ایک ایسا شخص جو اپنے دور حکومت میں نیب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا، اور اپنے سیاسی مخالفین کو اذیتیں دیتے ہوئے، نواز شریف اور ان کی بیٹی کو، اس وقت کے قائد حزب اختلاف کے ساتھ، جو کینسر کا مریض تھا، کو گرفتار کروانے میںخوشی محسوس کرتا تھا۔ خان کے ہتھکنڈوں میں چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنا، اور انہیں دھمکی دینے کے لیے ٹیلی ویڑن پر ایک خاتون کے کلپس نشر کرنا شامل تھا، اس خاتون کو عمران خان نے وزیراعظم ہائوس میں یرغمال بنائے رکھا تھا۔ وہ چیئرمین نیب کو صدر زرداری اور فریال تالپور کو گرفتار کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے، فریال تالپور کو اسلام آباد کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ عید سے ایک دن پہلے، جو اگست 2019 کی تاریخ کے آس پاس پڑی جس پر ہندوستان نے کشمیر پر حملہ کیا، میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مظفرآبادجا رہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ عمران خان نے عید سے ایک دن پہلے ہسپتال کا ایم ایس تبدیل کیا، کسی اور کو تعینات کیا اور فریال تالپور کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ یہ اس شخص کے چھوٹے چھوٹے حربے تھے۔ صدر زرداری نے انہیں ان کے اقدامات کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔ عمران خان کو اپوزیشن اور ان کی اپنی کابینہ میں موجود لوگوں نے خبردار کیا تھا، خاص طور پر جب عمران خان اپنے مخالفین کے گھرانوں کی خواتین کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ نے کابینہ کے اجلاس میں عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ وہ بھی کسی دن اپوزیشن میں ہوں گے۔ آج عمران خان اسی نیب پر تنقید کر رہے ہیں جس کا انہیں اتنا شوق تھا۔ اگر ہماری طرف سے کوئی اس معاملے میں ملوث ہوتا تو ہمیں بغیر سوچے سمجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق خاتون اول ٹرسٹی تھیں اس لیے بے قصور ہیں۔ مریم نواز شریف اور فریال تالپور دونوں ٹرسٹی تھیں۔ آج عمران خان انہی نیب ترامیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ہم اپوزیشن میں رہتے ہوئے لائے تھے، اس وقت عمران خان کہتا تھا کہ ہم این آر او مانگ رہے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے تو نیب سے یہ دعویٰ کرتے ہوئے خود کو دور کر لیتے کہ یہ ایک خودمختار ادارہ ہے۔ شرجیل میمن کو عمران خان کے دور میں عدالت کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا، سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو ان کے گھر پر حملہ کرکے گرفتار کیا گیا تھا۔عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں پی ٹی آئی نے پرامن احتجاج اور سیاسی اجتماعات کی کال نہیں دی۔ اس نے اس کے بجائے پرتشدد ردعمل کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سیاسی جماعت کے بجائے ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر کام کرنے کا انتخاب کیا۔ جب رانا ثنا اللہ پر کئی کلو گرام کی ہیروئن رکھنے کا الزام لگا تو جسٹس بندیال کو آدھی رات کو اپنی عدالت کھول کر ثناء اللہ کو اسی انداز میں عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان کو بمشکل ایک رات بھی جیل میں گزارنے کا ردعمل تشدد تھا۔ انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ یہ وہ وقت ہے جب ریاست کو متحد ہو کر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک جہاں عمران خان سے اظہار یکجہتی کیا گیا، وہیں لاہور کے جناح ہاؤس یا جی ایچ کیو تک کوئی نظر نہیں آیا۔ مجرم کو ’’آپ کو دیکھ کر اچھا لگا‘‘ کا استقبال کرنے کے بجائے عدالت کو عسکریت پسند تنظیم اور دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔ اسے عمران خان کو دہشت گرد تنظیم یا سیاسی جماعت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا موقع دینا چاہیے تھا۔ نتیجہ خیز فیصلہ اس کے جواب کی بنیاد پر ہونا چاہیے تھا۔ ہر ادارے پر حملہ کرنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے 2014 میں پارلیمنٹ سے شروع ہونے والے ہر ادارے پر حملہ کیا ہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ آئی ایس آئی کو استعمال کر کے اتحادیوں سے جوڑ توڑ کیا گیا۔ اس پر از خود نوٹس کا مطالبہ کیا گیا۔ جنرل فیض اور عمران خان کو عدالت میں بلا کر پوچھ گچھ کرنی چاہیے تھی۔ وہ صرف جمہوریت کے بارے میں سوچتے ہیں جب ہم اسے بحال کر لیتے ہیں۔ اگر وہ ازخود نوٹس لینے پر اتنے ہی بضد تھے تو انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا جس طریقے سے ملک کو چار سال تک چلایا گیا، میڈیا کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور صوبوں کے حقوق غصب کیے گئے۔ جب ہم نے عدم اعتماد پیش کیا تو اسے آئین کو پامال کیا گیا۔ اس پامالی کا نہ ہم نے بطور حکومت کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی عدالتوں نے۔ جہاںتک پنجاب کا تعلق ہے تو راتوں رات فیصلے ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے عدم اعتماد کے حق کو استعمال کرنے کے لیے ایک ماہ تک عدالت کی راہداریوں میں گھومتے رہے۔ اس وقت مختلف اداروں میں عمران خان کے سہولت کار بھی اسمبلی تحلیل کرنے کے درپے تھے تاکہ انتخابات کرائے جائیں۔ عدم اعتماد کی رات ان کی ناکامی کے باوجود سازش جاری رہی۔ جب ہم 25 مئی کو ملکی معیشت کی مدد کرنے کے طریقے تلاش کر رہے تھے، وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاہدے کو سبوتاڑ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عدالتوں نے کچھ نہیں کیا کیونکہ 25 مئی کو اسلام آباد شہر کو آگ لگا دی گئی کیونکہ سازش جاری تھی۔ پھر انہوں نے ایک غیر آئینی فیصلے کے ذریعے پنجاب حکومت کو گرایا اور زبردستی انتخابات کرانے کی امید ظاہر کی۔ اپنے اصولوں کے مطابق ہم انتخابات کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ نیب سے نہیں بلکہ انتخابات کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ ہم نے اسے بارہا شکست دی ہے، اور اب ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ تاہم ہم کسی سازش کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ جو اپنے اداروں میں ون مین شو چلا رہے ہیں ان کی خواہش ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر ون مین شو چلایا جائے۔ وہ پارٹی جس نے آمروں ضیاء اور مشرف اور ان کے منتخب حکمرانوں کا مقابلہ کیا ہے، وہ اس سازش کو ناکام بنائے گی اور ملک کی جمہوریت کو بچائے گی۔ ملک کا مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان نے واش روم استعمال کیا یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ قوم مشکل معاشی دور سے دوچار ہے۔ قوم کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وزیراعظم کی کرسی پر کون بیٹھتا ہے بلکہ ان کے مسائل حل کرنے میں کون مدد کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا آخری موقع ہے کہ وہ سیاسی جماعت بننا چاہتی ہے یا نہیں۔ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ الیکشن کیوں نہیں ہوئے؟ اس سوال کا جواب انہیں خود دینا چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ہمارا ادارہ نہیں بلکہ ہمارا ہمسایہ (سپریم کورٹ) ہے۔ جب وہ ہمارے آئین اور قانون کو اپنی مرضی کے مطابق دوبارہ لکھیں گے تو پھر ہمارے پاس عدم استحکام نہیں تو اور کیا ہوگا؟ جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کی مذمت کرنے اور ان کے خلاف از خود کارروائی کرنے کے بجائے تاریخ یاد رکھے گی کہ ہمارے چیف جسٹس نے عمران خان کو دیکھ کر ’گڈ ٹو سی یو‘ کہہ کر ردعمل کا اظہار کیا۔ نظام اور جمہوریت کو درست راستے کی طرف لے جانا بالآخر ہماری ذمہ داری ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے تمام اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ عدالت نے جو کرنا تھا کر لیا ہے۔ بہت سارے مقدمات زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس اگر کچھ نہیں تو زیر التوا مقدمات کو مکمل کرکے کم از کم اپنی وراثت کو بچا سکتے ہیں۔ اگر وہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور عمران خان کو ریلیف دیتے رہتے ہیں، جس پر وہ جج ہونے کے بعد سے عمل کرتے رہے ہیں اور انتخابی دھاندلی سمیت دیگر کیسز کے علاوہ بی آر ٹی پراجیکٹ میں خان کو سہولت فراہم کرتے رہے ہیں اور اگر یہ ایسا ہی کرتے رہیں گے تو نظام نہیں چلے گا۔ چیئرمین بلاول نے ‘پاکستان کھپے’ کے تصور کا اعادہ کرتے ہوئے، اور ملک اور اس کے عوام کو درپیش بحرانوں سے نکلنے میں مدد کرنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑے وہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام کیا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں