لاہور(آئی این پی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ قومی انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مزیدمذاکرات ہونے چاہییں۔ سیاستدانوں کو ضد ، انا اور مفادات ایک طرف رکھ کر ملک اور قوم کے مفاد میں سوچنا ہوگا، عوام کو فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ حجاج اکرام کی واپسی مکمل ہونے کے بعد الیکشن کروانے کی تجویز دی ہے۔
سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے شفاف انتخابات جماعت اسلامی کی ضرورت ہیں، جو پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتے، نیک مقصد کے تحت حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کو بات چیت کے لیے آمادہ کیا۔ سسٹم جام ہوا پڑا ہوا ہے ، موجودہ انتشار کے نتائج عوام بھگت رہے ہیں،سیاسی افراتفری کی وجہ سے معیشت مزید تباہ ہورہی ہے اور بدامنی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔پڑوسی اسلامی ممالک بھی پاکستان کی صورتحال سے پریشان ہیں۔ ایک پڑوسی ملک کے سفیر سے ملاقات میں ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ پاکستان کی صورتحال پر افسردہ ہیں کیونکہ اس سے خطہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ سیاستدانوں کو آگاہ کردیا کہ اگر ان کا قومی انتخابات پر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر شاید بلدیاتی انتخابات یا ریفرنڈم ہی ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب اور بعدازاں مختلف ٹی وی انٹرویوز میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سراج الحق نے کہا کہ اگر صرف پنجاب میں الیکشن ہوتے ہیں توپورا خدشہ ہے کہ نتائج متنازعہ ہو جائیں گے۔ ماضی میں قوم نے الیکشن نتائج قبول نہ کرنے اور سیاستدانوں کی مذاکرات میں ناکامی کے نتائج کو بھگت لیا ہے، ایک صورت میں ملک ٹوٹ گیا، دوسرے نتائج مارشل لاز کی صورتوں میں آئے۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ ملک مزید کمزور نہ ہو۔ معیشت پہلے ہی تباہ ہوچکی ہے۔ عوام مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ چیف جسٹس سے بھی گزارش کی ہے کہ فراخ دلی کامظاہرہ کریں اور سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کے لیے پورا موقع فراہم کریں یا پھر فل کورٹ بنا لیں۔ عدالتوں کے فیصلے ایسے ہونے چاہییں کہ انہیں پوری قوم کا اعتماد ملے۔ جماعت اسلامی اداروں کو مکمل غیر جانبدار دیکھنا چاہتی ہے۔ اشاروں سے حکومتیں بنیں گی تو حال سب کے سامنے ہے۔
ایک ادارے کے سابق سربراہ نے سیاست سے مکمل غیر جانبداری کا قوم سے وعدہ کیا ہے، الیکشن میں ان کی غیرجانبداری کا امتحان ہوگا۔امیر جماعت نے کہا کہ ملک کو اب آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی بجائے خودانحصاری کی طرف آنا ہوگا، معاشی بہتری کے لیے رجعت پسندی کی بجائے پروگریسو سوچ اپنانا ہوگی۔ ہماری حکومتوں کی ماضی میں بھی اور اب بھی صرف ایک ہی پالیسی رہی ہے کہ قرض لو ، اسے کھا اور بعد میں مزید قرض کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے دروازوں پر پہنچ جا۔ ملک کو آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور امریکی غلامی سے نجات چاہیے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے رواں مالیاتی برس کے اختتام تک 23ارب ڈالر واپس کرنے ہیں ، قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ماضی کے قرضوں کا کیا بنا۔ حکمران قرض واپس کرنے کے لیے غریبوں کا خون نچوڑتے ہیں۔ بہتری کے لیے کرپشن ، سودی معیشت اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرنا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بنانا ہوگا ، یہ کام صرف جماعت اسلامی ہی کرسکتی ہے۔ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کے تجربات سے ثابت ہوگیا ہے کہ ملک پر مسلط حکمران طبقہ بہتری لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، اب ملک کو اسلامی نظام کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں