اسلام آباد (پی این آئی) صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ 14 اپریل کو قومی اسمبلی کا ان کیمرا اجلاس ہوا جس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی نے کی، اس اجلاس میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے آرمی چیف کے بیان کی سب لوگ تعریف کر رہے ہیں، اسی اجلاس میں ایک ایسا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا جس کو میڈیا پر رپورٹ نہیں کیا گیا۔
اپنے ایک وی لاگ میں اعزاز سید نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ آرمی چیف نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات لیکن بعض اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتے ، اس میں وزیر اعظم شہباز شریف سب سے سرفہرست ہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ اقتدار کا راستہ آرمی چیف کو خوش رکھ کے ہی آتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 14 اپریل کو اجلاس سے پہلے وزیر اعظم کے ساتھ ہی آرمی چیف، ڈی جی ملٹری آپریشنر اور ڈی جی آئی ایس آئی آئے تھے، ان کیلئے الگ نشستیں لگائی گئی تھیں، سب سے پہلے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی جس کے بعد سوال جواب شروع ہوئے۔ آرمی چیف جب گفتگو کر رہے تھے تو ان کے اے ڈی سی نے وزیر اعظم شہباز شریف کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد وہ فوری طور پر اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور سپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی، انہیں اجازت دی گئی تو انہوں نے کہا کہ سپہ سالار نے کور کمانڈرز کانفرنس بھی رکھی ہوئی ہے اس لیے انہیں وقت دیا جائے تاکہ وہ جا سکیں۔اعزاز سید کے مطابق وزیر اعظم کا کام تھا کہ کسی جونیئر وزیر کو کہتے لیکن وہ خود کھڑے ہوگئے۔
معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ سپیکر قومی اسمبلی دیکھ رہے تھے کہ بعض ارکان فوجی قیادت سے سوال کرنا چاہ رہے تھے، اس لیے انہوں نے سوالوں کا سلسلہ نہیں روکا۔ اس پر وزیر اعظم بے چین نظر آئے اور غالباً چاہ رہے تھے کہ آرمی چیف کو جانے دیا جائے۔ اس پر شہباز شریف نے مرتضیٰ جاوید عباسی کے کان میں کچھ کہا، جس پر وہ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ آرمی چیف کو جانے دیا جائے، اس پر بھی سپیکر نے سوالوں کا سلسلہ نہ روکا۔ پھر شہباز شریف اپنی نشست سے اٹھے اور آرمی چیف کی نشست پر چلے گئے، پھر ان سے گفتگو کرکے خود چل کر سپیکر راجہ پرویز اشرف کے پاس گئے اور کہا کہ انہیں جانے دیا جائے۔صحافی کے مطابق یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم کے عہدے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو مد نظر نہیں رکھا۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کی منشا کی نمائندگی کر رہے ہیں، مہمانوں کی عزت اپنی جگہ ہے لیکن اس کیلئے انہیں اپنے عہدے کی عزت داؤ پر نہیں لگانی چاہیے تھی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں