لاہور (آئی این پی) آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے سنیئر وکلا اور ماہر قانون کی گول میز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن سپریم کورٹ کی احکامات کی روشنی میں ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ اپنے اندرونی معاملات کو افہام وتفہیم سے مل بیٹھ کر حل کرے‘ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کا مطلب اس کی آزادی، وقار اور اتھارٹی کو نقصان پہنچانا ہے‘
تمام وکلاء عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں، ہمیں مضبوط عدلیہ کی ضرورت ہے جو آئین کے اندر رہ کر کام کرے، ججز اپنے حلف کی پاسداری کریں‘وزیر اعظم انتخابات سے گریز نہ کریں اور بنچز کے قیام اور دیگر معاملات کو بنیاد بنا کر توجہ نہ ہٹائیں‘ پنجاب اور کے پی میں انتخابات مقررہ معیاد 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو لاہور میں ’’آئین،جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ ‘‘ کے عنوان سے گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں سینئر وکلاء حضرات نے ملک کی سیاسی و آئینی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ اس موقع پر سینئر قانون دان اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پارلیمان اور عدلیہ میں تاریخی جنگ شروع ہوئی ہے،سیاسی امور کو سیاست میں رہنا چاہیے لیکن یہ عدلیہ میں داخل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ ہمارا ملک قرضوں میں جکڑا ہو اہے،ہماری چار نسلیں یہ قرض اتارتی رہیں گی۔اگلی چار نسلوں نے جو کمانا تھا وہ ہم کھا چکے ہیں،ہمیں ملک چلانے کیلئے اب مزید بھی قرضے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے ادارے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں،ہمیں سوچنا ہو گا کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہو گی یا نہیں؟ کیا پنجاب اور کے پی میں 90 دن میں الیکشن ہونے چاہیے یا نہیں؟ یہ آئین کا تقاضا ہے۔ایک طرف سے انتخابات التوا کیس میں فل کورٹ کا مطالبہ کیا گیا،اگر چیف جسٹس فل کورٹ بناتے تو دوسروں نے کہنا تھا کہ دو ججز کو نکالو۔اعتزاز احسن نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آئین کہتا ہے 90 روز میں الیکشن کراؤ لیکن وزیراعظم کہتا ہے ہم اس بینچ کو نہیں مانتے،سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ 14 مئی کو الیکشن ہوں گے تو اسی تاریخ کو ہوں گے،جو عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کرے گا وہ نا اہل ہو جائے گا۔ قبل ازیں اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آئین قانون پرعملدرآمد کیلئے وزیراعظم کو طلب کرنا چاہیئے،وزیراعظم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے،الیکشن سے فرار کیلئے فراڈ کرنے پران کی پراسیکیوشن ہونی چاہیئے۔انکا کہنا تھا کہ اس وقت ایک طرف نظریہ ضرورت اور دوسری طرف آئین ہے،بنچ میں کتنے جج تھے یہ الگ ایشو ہے،پہلا ایشو 90 روز میں الیکشن گا،اب 90 روز میں الیکشن کا وقت گزر چکا ہے۔اعتزاز احسن نے کہاہے کہ تمام قوم اس وقت عجیب تذبذب میں مبتلا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہوسکتا،ہمارے ملک اور تمام اداروں میں قابلیت موجود ہے۔ اعتزاز احسن کا کہناتھاکہ ہر کوئی محب وطن پاکستانی ملک کی ترقی چاہتا ہے،آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی پر سب اکٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی ہفتوں سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ میں بہت بڑی دراڑ آگئی ہے۔عالم یہ ہوگیا ہے کہ بینچ کی تشکیل دیکھ کر سمجھ آجاتی ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا،اس وقت عدلیہ میں 2گروپ بن چکے ہیں،سیاسی جماعتیں اس وقت ایک دوسرے کے دست وگریباں ہیں۔ان کا کہناتھا کہ کیا اس ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہوئی ہے یا نہیں،کیا 90 روز میں الیکشن ہونے چاہیے یا نہیں،اس معاملے کو بینچ کی تشکیل میں الجھا دیا گیا ہے۔ اپنے خطاب میں معروف قانون دان و سپریم کورٹ بار کے رہنما حامد خان نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تمام الیکشن ایک ساتھ ہی ہونے ہیں۔بھارت میں سال بھر صوبائی اسمبلی کے الیکشنز ہوتے ہیں ،ملک کے ہر ادارے کا بنیادی فرض ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمدکرے۔تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں،بطور وکیل ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔ اعلامیہ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن سپریم کورٹ کی احکامات کی روشنی میں ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ اپنے اندرونی معاملات کو افہام وتفہیم سے مل بیٹھ کر حل کرے، عدالت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کا مطلب اس کی آزادی، وقار اور اتھارٹی کو نقصان پہنچانا ہے۔اعلامیہ کے متن کے مطابق اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ عدالتیں آئین کے اندر کام کریں،
تمام وکلاء عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں، ہمیں مضبوط عدلیہ کی ضرورت ہے جو آئین کے اندر رہ کر کام کرے، ججز اپنے حلف کی پاسداری کریں۔گول میز کانفرنس کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف انتخابات سے گریز نہ کریں اور بنچز کے قیام اور دیگر معاملات کو بنیاد بنا کر توجہ نہ ہٹائیں، پنجاب اور کے پی میں انتخابات فوری اور مقررہ معیاد 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں، ہر پاکستانی چاہے وہ کسی بھی عہدے یا رتبے کا ہو اس کی یہ ذمہ داری ہے۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں