لاہور (پی این آئی) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ علامہ طاہر محمود اشرفی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات معمول پر لانے کیلئے طویل عرصے سے کوششیں جاری تھیں، پاکستان نے بھی کوشش کی لیکن ہمارے اندرونی مسائل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ہم ان میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات میں اصل بریک تھرو چین کے صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہوا، تعلقات کی بحالی میں ہمارا صرف دعاؤں کا تعلق ہے۔
پاکستان ٹائم کو دیے گئے انٹرویو میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ 2017 میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے ہیں، پوری امت اپنی معیشت کو بہتر کرے، بیرونی مداخلتیں ختم ہونی چاہئیں، ان کے بھائی 2015 سے ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کر رہے تھے، چین کے صدر سعودی عرب گئے تو اس میں ایران کے ساتھ معاملات آگے بڑھے، محمد بن سلمان کی سوچ اور ویژن کے مطابق سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں اس حوالے سے کوششیں ہوئیں، میں نے پاکستان کے اندر سعودی عرب کے سفیر اور ایرانی سفیر کیلئے دو کھانے ایسے کیے جن میں وہ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے، دونوں سفیروں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس سے لگا کہ معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن ہمارے داخلی معاملات ایسے ہیں کہ ہم بہت سی چیزوں میں پھنسے ہوئے ہیں، عمران خان سے پہلے نواز شریف نے بھی کوششیں کی تھیں، ہم شروع کرتے ہیں لیکن ہمارے مسائل ایسے ہیں کہ ہم ان میں الجھ جاتے ہیں اور پھر کامیابی نہیں مل پاتی۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی چیزیں مستقل محنت مانگتی ہیں، ایسی سفارتکاری کیلئے یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ دونوں ملکوں کا ایک ایک دورہ کریں اور حالات معمول پر آجائیں، اس کیلئے طویل سفارتکاری کرنی پڑتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں صلاحیت ہے لیکن وہ اپنے مسائل سے ہی نہیں نکل پاتے، عمران خان کے دور میں ایک بہت بڑی جنگ شروع ہوگئی جس میں ہم بلا وجہ پھنس گئے، وہ جنگ یہ تھی کہ اسلام عربوں کا ہے یا غیر عربوں کا ہے، اس میں بلاک بنانے کی کوشش بھی ہوئی جس کی وجہ سے ہمارے تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی۔علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں ہمارا صرف دعاؤں کا تعلق ہے، سعودی عرب کیلئے پاکستان بہت اہم ہے ، بعض اوقات آپ اپنی حرکتوں سے اس اہمیت کو ختم کردیتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں