پشاور(آئی این پی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین و قانون کی حکمرانی قائم اور کرپشن و مس مینجمنٹ کا خاتمہ ہو جائے تو ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے، ملک میں وسائل اور دولت کی کمی نہیں، بحران کی وجہ نااہل قیادت ہے جو 75برسوں سے فوجی ڈکٹیٹروں اور نام نہاد و جمہوری لیڈران کی شکل میں قوم پر مسلط ہے، تبدیلی کا آغاز ذات سے ہوتا ہے مگر حکمران طبقہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں، یہ لوگ ایکڑوں پر محیط محلات میں رہتے ہیں،
صرف 18افراد کی دولت 4ہزارارب ہے، ایک گورنر کے لیے 700کنال کا گھر اور ڈی سی ہائوسز دو دو سو کنالوں پر مشتمل ہیں، برطانوی وزیراعظم چار کمروں کے گھر میں رہتا ہے، حکمران اشرافیہ سٹیٹس کو کی محافظ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے، اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ بطور سابق وزیرخزانہ ،سینیٹر اور سیاسی ورکر اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں کی ضرورت نہیں اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے۔ وہ پشاور میں جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی جانب سے صوبہ کی ترقی کے لیے آئندہ پانچ برس کی جامع حکمت عملی کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے امیر صوبہ پروفیسر ابراہیم، مولانا اسماعیل، عبدالواسع، عنایت اللہ خان، ڈاکٹر اقبال خلیل اور دیگر صوبائی قیادت کو پنج سالہ (2023 تا 2028ئ) منصوبہ کی تیاری پر مبارک باد دی اور خیبرپختونخوا کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے جدوجہد میں مزید تیزی لانے کی ہدایات جاری کیں۔ اس موقع پر مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا کام محنت و جدوجہد کرنا اور قوم تک حقیقت کو پہنچانا ہے، جس طرح ایک بیج سے تناور درخت اور مختلف آبشاریں مل کر دریا کا روپ دھار لیتی ہے، اسی طرح ہمت، جہد مسلسل سے ہر نیک مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ ٹرائیکا کی پشت پناہی چھوڑ دے تو یہ ظالم جاگیردار، وڈیرے اور کرپٹ سرمایہ دار جماعت اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتے، مسائل اسی وقت حل ہوں گے جب فرسودہ نظام بدلے گا اور اس کی جگہ قرآن و سنت کا نظام آئے گا۔
امیر جماعت نے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہائیڈروالیکٹرک کا اتنا پوٹینشیل ہے کہ اس سے پورے ملک کو مفت بجلی مل سکتی ہے، یہاں کی وادیاں سوئٹزرلینڈ سے زیادہ خوب صورت ہیں، معدنیات سے مالا مال علاقہ اور محنتی اور جفاکش افرادی قوت کے ہوتے ہوئے صوبہ میں غربت بدامنی کی وجہ حکمران طبقہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جب جماعت اسلامی اتحادی حکومت میں شامل تھی تو انھوں نے صوبہ کو سود اور قرض فری بنایا، اپنی حد تک وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا، بچوں کو مفت کتابیں دیں، میڈیکل کالج اور خواتین کی یونیورسٹی بنائی، زیتون کی کاشت، مالاکنڈ ٹنل اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا کے حقوق کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل جرگہ بنایا جس کے نتیجہ میں مرکز میں ثالثی کمیٹی بنی اور صوبہ کو 110ارب روپے ملے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے پی ٹی آئی، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلزپارٹی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، یہ لوگ کسی بھی صورت سٹیٹس کو قائم رکھنے پر بضد ہیں، ان کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے دودھ کا فیڈر حاصل کرنے کے لیے ہے، گزشتہ پانچ برسوں میں ملک میں پانچ وزرائے خزانہ آئے اور ان سب کے لیے ترقی کا ایک ہی دروازہ آئی ایم ایف ہے، جو کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کر لیں گے ، وہ بھی وہاں گئے اور ان کی پارٹی کے ایک لیڈر نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ آئندہ حکومت ملنے پر بھی وہ عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کریں گے۔امیر جماعت نے کہا کہ موجودہ حالات جاری رہے تو ملک میں انارکی کا خطرہ ہے، عوام بھوک سے مررہے ہیں، لوگوں کو کھانے کے لیے آٹا تک دستیاب نہیں، اس صورت حال سے نکلنے کا واحد حل قومی انتخابات ہیں، ہمارا مشورہ ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کے لیے جمہوریت اور سیاست پر یقین رکھنے والے سبھی سٹیک ہولڈرز متفق ہو جائیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن غیرجانبدار ہو جائے اور عوام سے فیصلہ لیا جائے، جس کے حق میں قوم فیصلہ دے پھر اسے آئندہ پانچ برسوں کے لیے بغیر کسی حیل و حجت کے حکومت کا موقع دیا جائے۔خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بدامنی ایک معیشت کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے وار اکانومی کہا جاتا ہے، یہ عالمی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے، مقامی سطح پر طاقتور لوگ اسے سپورٹ فراہم کرتے ہیں اگر پرتشدد کارروائیوں میں ملوث عناصر کی پشت پناہی بند ہو جائے تو اس جن کو بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے امن کے لیے باجوڑ سے وزیرستان تک پانچ روزہ امن کاروان نکالا جس کا اختتام باڑہ میں ہوا، ہم آئندہ بھی ایسی کوششیں کرتے رہیں گے، جماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا کو امن، ترقی، خوشحالی دینے کے لیے جو خاکہ بنایا ہے اس میں پوری تندہی سے رنگ بھریں گے۔ تقریب میں علمائے کرام، صحافیوں، تجزیہ نگاروں، ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، طلبہ سمیت مختلف شعبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں