اسلام آباد(آئی این پی)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بلدیاتی انتخابات میں سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی طرف سے جماعت اسلامی کی چھینی گئی نشستوں کے حوالے سے منگل کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی سماعت میں شرکت کی‘ ان کے ہمراہ جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کے سربراہ اور قانونی امور کے نگراں سیف الدین ایڈوکیٹ اور دیگر بھی موجود تھے۔
بعد ازاں حافظ نعیم الرحمن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن میں ایک بار پھر اپنے اس واضح اور دوٹوک موقف کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن مزید تاخیر کے بجائے نتائج کے حوالے سے زیر التواء تمام نشستوں کے معاملات فوری طور پر طے کرے اور کسی بھی قسم کے دبائو میں آئے بغیر حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرے ۔ ملتوی شدہ 11نشستوں کے انتخابی شیڈول کا فوری اعلان کرے ، دوبارہ گنتی کے نام پر جن نشستوں پر دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی ثابت ہوئی ہے پھر بھی اس کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے اسے ڈی نوٹیفائی کرے ، جن آر اوز ڈی آر اوز سے شکایات ہیں اور جو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے زیر اثر ہیں معاملات دوبارہ ان ہی کی طرف بھیجنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ، اہل کراچی نے جماعت اسلامی کو جو مینڈیٹ دیا ہے ، اس کا اور اپنی ایک ایک سیٹ کا تحفظ کریں گے اور اس کے لیے ہر قسم کا آئینی و قانونی اور جمہوری طریقہ اختیار کریں گے ، احتجاج اور دھرنا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے ، اس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے ۔جمعہ 17مارچ کو شاہراہ فیصل سمیت شہر کی 10اہم شاہرائوں پر دھرنے دیں گے، اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما شاہد شمسی اور دیگر بھی موجود تھے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ جعل سازی اور نتائج تبدیل کرنے کے حوالے سے تمام حقائق اور ثبوت ہم پیش کر چکے ہیں اور الیکشن کمیشن کے سامنے بھی سارے معاملات آگئے ہیں لیکن پھر بھی 2ماہ ہو گئے الیکشن کمیشن نے اپنا کام نہیں کیا ۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ تمام حقائق و دستاویزات کا فارنزک آڈٹ کرایا جاتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر کا ایک ہی انگوٹھا دو الگ الگ نتائج پر لگا ہو، سارے جعلی فارم11کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے جعل سازی کی کاری گری کے لیے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کو بہت وقت دیا گیا اور اس نے پریزائڈنگ افسران پر دبائو ڈال کر ڈرا دھمکا کر اور نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دے کر اپنی مرضی کے نتائج کے فارم 11پر ان سے دوبارہ دستخط کروائے اور انگوٹھے کے نشانات بھی لگوائے ،دوبارہ گنتی میں صرف جماعت اسلامی کے ووٹ ضائع کیے گئے اور ڈبل مہریں بھی صرف ترازو کے نشان پر ہی لگی نکلیں اور مہریں بھی ایسی کے ایک ہی بیلٹ پیپر پر دو الگ الگ مہریں ۔ ووٹوں کے تھیلے پھٹے ہوئے نکلے ، لفافوں کی سیلیں ٹوٹی پائی گئیں ، اصل فارم 12دکھائے بغیر دوبارہ گنتی کی گئی اور ان تمام بے ضابطگیوں اور انتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں کے باوجود دوبارہ گنتی کی گئی اور ہمارے نمائندوں کے ان اعتراضات کو سنا ہی نہیں گیا ۔ جب یہ ساری دھاندلی واضح طور پر نظر آرہی ہے تو پھر حق اور انصاف کے مطابق فیصلہ کیوں نہیں کیا جارہا ۔
اس بدترین صورتحال میں الیکشن کمیشن کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اس کی کارکردگی پر سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ جب ایک بلدیاتی انتخابات میں چند سیٹوں کے معاملات حل نہیں ہو پارہے تو یہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کس طرح کراپائے گا ۔ اس لیے اگر الیکشن کمیشن کو عوام کے اندر اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے اور انتخابات پر عوام کے اعتماد کو قائم رکھنا ہے تو کراچی کے بلدیاتی انتخابات اس کا ٹیسٹ کیس ہیں۔ الیکشن کمیشن کسی بھی قسم کے دبائو میں آئے بغیر حق و انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے ۔ ہم کسی بھی قسم کی بے جا حمایت ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اپنا حق اور انصاف چاہتے ہیں اور سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے بھی یہ کہتے ہیں کہ کراچی کے عوام نے ہمیں جو مینڈیٹ دیا ہے اسے تسلیم کرے، تمام پارٹیوں میں سب سے زیادہ ووٹ ہم نے حاصل کیے ہیں ، سیٹیں بھی ہماری زیادہ ہیں انہیں سرکاری اختیارات و وسائل اور حکومتی مشنری کے استعمال ، دھونس دھمکی اور دھاندلی سے کم نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تک کے جاری کردہ نتائج کے مطابق 358وارڈز میں جماعت اسلامی جیت چکی ہے ، پیپلز پارٹی کے پاس 300وارڈز بھی پورے نہیں اور پی ٹی آئی نے 214وارڈز جیتے ہیں ، اس لیے کراچی کا میئر تو جماعت اسلامی کا ہی بنے گا ۔ اب کوئی اسے عزت سے قبول کرے یا نہ کرے ۔ اگر کسی قسم کی کوئی انجینئرنگ کر کے ، غیر جمہوری رویہ اور خرید و فروخت کے ذریعے ہمارا میئر بننے سے روکا جا سکتا ہے تو یہ کوشش بھی کر کے دیکھ لی جائے ، یہ رویہ اور طرز عمل جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہو گا اور خریدنے اور فروخت ہونے والے دونوں اپنا منہ کالا کریں گے ، حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی تمام تر دھاندلیوں اور جمہوریت دشمن اقدامات کے باوجود چاہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ عوام کے مسائل کے حل اور کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے سب مل کر آگے بڑھیں ، اتفاق رائے سے مشترکہ میئر بنائیں اور جماعت اسلامی کے سوا کسی اور پر اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم دیانت داری کے ساتھ عوامی خدمت کرنا چاہتے ہیں ، شہر کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے کسی فرد کا نام توشہ خانہ سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل نہیں ، ہم نے ماضی میں بھی شہر قائد کی خدمت کی ہے اسے بنایا اور سنوارا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ درست اور حق و انصاف پر مبنی مردم شماری کراچی کے لیے از حد ضروری ہے ، ماضی میں ہماری آبادی میں ڈنڈی ماری گئی اور اس وقت جو صورتحال ہے اور مردم شماری پر تحفظات سامنے آرہے ہیں ، لوگوں کو ایکسز نہیں دیا جارہا ، اس لیے ضروری ہے کہ تما م اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ، درست مردم شماری سے کراچی کی قومی اسمبلی کی سیٹیں 22سے بڑھ کر 35اور صوبائی کی 44سے بڑھ کر 62ہو جائیں گی اور پی ایف سی ایوارڈ میں بھی کراچی کا حصہ بڑھے گا ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں