لاہور (پی این آئی) سینئر صحافی رانا عظیم نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ڈرائیور کو سکرپٹ لکھ کر دیا گیا کہ یہ پڑھنا ہے، غلطی ٹھیک کرنے کیلئے 7 مرتبہ بیان ریکارڈ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ویسا ہی واقعہ ہوا ہے، جیسا سانحہ وزیر آباد میں ہوا تھا کہ واقعہ ہونے کے فورا بعد ملزم کا بیان بھی سامنے آ جاتا ہے۔رانا عظیم نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک جھوٹ کے پیچھے چھ جھوٹ بولے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے میرے چار سوال ہیں، ان کے جواب دے دیں۔ رانا عظیم نے کہا کہ ظل شاہ گرفتار ہوتا ہے اس کے بعد آپ اسے ڈیفنس لے کر جاتے ہیں، دیفنس کی طرف کوئی جیل نہیں۔ جیل لے کر جانا تھا تو آپ لے کر کیمپ جیل جاتے یا پھر کوٹ لکھ پت۔رانا عظیم نے سوال کیا کہ اگر ظل شاہ کو ڈیفنس میں لے جا کر چھوڑ دیا گیا اور وہاں انہیں حادثہ پیش آ گیا تو کیا یہ تصویر کیا جا سکتا ہے کہ ایک کالے شیشوں والی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے ڈیفنس میں داخل ہو جائے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کیا سوالات اٹھائے، اس ویڈیو میں ملاحظہ فرمائیں۔واضح رہے کہ آئی جی پنجاب نے ظلِ شاہ کی موت کو حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، انہوں نے گاڑی کے ڈرائیور کا اعترافی بیان بھی چلایا جو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ہی رہنما کا ڈرائیور ہے۔ اعترافی بیان میں ڈرائیور جہانزیب نواز کا کہنا تھا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کرتا ہے۔جہانزیب کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو ہم دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے گئے تو ہماری گاڑی کی ایک شخص کے ساتھ ٹکر ہوئی، گاڑی کی ٹکر سے ظل شاہ گر گیا تھا جسے ہم نے پھر گاڑی میں ڈالا۔جہانزیب نواز نے بتایا کہ سب سے پہلے ہم اس کو سی ایم ایچ لے کر گئے کیونکہ وہ قریب تھا۔
سی ایم ایچ میں رش زیادہ تھا ہم وہاں سے نکل کر سروسز ہسپتال پہنچے، ایدھی کی سٹریچر پر ظل شاہ کو ہسپتال کے اندر لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی موت ہو چکی ہے، اس وجہ سے ہم وہاں سے گاڑی نکال کر گھر واپس آگئے۔ڈرائیور جہانزیب نواز نے مزید بتایا کہ اگلی صبح جب اٹھا تو سوشل میڈیا پر میں نے اپنی تصاویر دیکھیں تو پریشان ہوگیا، میں نے اپنے باس راجا شکیل زمان جو پی ٹی آئی کے نائب صدر ہیں ان کو واقعہ کی مکمل تفصیل بتائی، انہوں نے میری ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کرائی اور تفصیل بتائی، پھر مجھے عمران خان کے پاس لے کر گئے اور خاں صاحب کو واقعے کی تفصیل بتائی۔جہانزیب نواز نے کہا کہ خان صاحب نے شاباش دی اور ہم وہاں سے واپس آگئے، راجا صاحب نے مجھے کہا کہ آپ اپنا حلیہ تبدیل کرلیں اور فکر نہ کریں، مجھے راجا صاحب نے کہا کہ آپ جیسے مرضی لاہور میں گھومیں ہم دیکھ لیں گے۔
ایک اور شخص عمر فرید ولد غلام حبیب نے بتایا کہ میں ہڑپہ کا رہنے والا ہوں اور 2012 سے یہاں پر ایئر ٹکٹنگ کا کام کر رہا ہوں۔ عمر فرید نے بتایا کہ جس دن یہ واقع ہوا میرے دوست نے مجھے فون کر کے کہا کہ کہاں ہو، میں نے جواب دیا کہ میں اپنے کمرے پر ہوں، اس نے کہا کہ ہم کھانا اکھٹے کھاتے ہیں، میں آجاتاہوں، یہ گاڑی لے کر آئے اور کہنے لگے کہ ہم پہلے گاڑی لگا آتے ہیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔عمر فرید نے مزید بتایا کہ ہم لنکن کالونی سے نکلے اور سروس روڑ پر تھے، جیسے ہی مال روڈ پر چڑھنے لگے تو یہ شخص (ظلِ شاہ) سڑک کے درمیان میں چل رہا تھا، جس سائیڈ پر میں بیٹھا تھا، اس طرف سے گاڑی اسے لگی اور وہ سڑک پر گر گیا، ہمیں لوگوں نے پھر ہاتھ دیا کہ اس کو مدد کی ضرورت ہے، جہانزیب گاڑی سے اترا اور ایک بندے کی مدد سے اسے گاڑی میں ڈالا اور ہمیں بتایا گیا کہ قریب سی ایم ایچ ہسپتال ہے، ہم اسے وہاں لے کر گئے تو دروازہ بند تھا ، پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ سروس ہسپتال چلتے ہیں۔
سروسز لے جانے لگے تو ٹریفک بہت زیادہ تھی، وارڈن کو بتایا کہ گاڑی میں مریض ہے ، تو اس نے اشارہ کھلوا دیا، ہم سروس پہنچے، جہانزیب سٹریچر پر اسے اندر لے کر گیا اور ڈاکٹرز کے حوالے کیا، واپس آ کر اس نے بتایا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ، پھر ہم وہاں سے واپس آئے اور گاڑی کھڑی کر دی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں