اسلام آباد (پی این آئی) صحافیوں پر کئی بار “لفافے” کے الزامات لگتے رہتےہیں لیکن عمومی طورپر یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ آیا وہ کسی سیاسی جماعت کے پے رول پر ہیں یا نہیں لیکن پہلی مرتبہ ایک خاتون اینکر کو مبینہ طورپر حساس اداروں کی طرف سے ” قومی خدمت” کے لیے استعمال کرنے کی کوششش کی کہانی سامنے آگئی۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نےایک کالم میں لکھا کہ ” 2014 ء کی بات ہے ، عمران خان کے دھرنے کی آمد آمد تھی، ایک مشہور ٹی وی چینل میں کام کرنے والی کرنٹ افئیرز کی 23 سالہ دلیر خاتون اینکر نے مُجھے طیش کے عالم میں فون کیا۔ اُس اینکر کا تعلق ایک ملٹری فیملی سے تھا، خاتون اینکر کی آواز میں شدید غصہ اور پریشانی تھی، فون کال پر اُس نے جو کُچھ بتایا وہ سُن کر مُجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ خاتون اینکر کا اپنی آفیشل صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے آئی ایس پی آر ، آئی ایس آئی اور فوج سے متعلقہ مُختلف آپریشنز اور پراجیکٹس پر دوسرے صحافیوں کے ساتھ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے مُختلف علاقوں میں پروگرام کے لئے آنا جانا بھی تھا۔اُن دنوں عمران خان کے بیانیے کو میڈیا اور مخصوص اینکرز کے ذریعے نشر عام کرنے، اُس کو صادق و امین اور مسیحا بنا کر پیش کرنے اور نواز شریف کو چور، ڈاکو، کرپٹ، غدار، توہین رسالت اور کافر جیسے الزامات کے ذریعے بدنام کرنے کی مُہم عروج پر تھی۔پراجیکٹ عمران خان کے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز نے محسوس کیا کہ پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل میں کام کرنے والا ایک مرد اینکر و کالم نویس ڈکٹیٹ کی گئی لائن سے ہٹ کر عمران خان کے طرزِ سیاست اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر “مُثبت رپورٹنگ” کی بجائے منفی تنقید کر رہا ہے۔ اُس تنقید کرنے والے مرد اینکر اور کالم نویس کو لائن پر لانے کا پلان فائنل ہوا اور آئی ایس آئی کے ایک افسر کو، جس کا کوڈ نام “ع” سے شروع ہوتا تھا۔
یہ ٹاسک سونپ دیا گیا۔اس کرنل نے ایک دن خاتون اینکر سے کہا کہ آپ جتنی قابل ہیں آپ اس مُلک کے لئے “اثاثہ” ثابت ہو سکتی ہیں، اس لئے میں نے آپ کو “آفیشلی اپروچ” کیا ہے ، آپ کے لئے یہ ایک انتہائی بہترین موقع ہے کہ “قومی خدمت” کر کے اپنی صلاحیتیں منوائیں تو آپ نہ صرف ترقی کی مزید سیڑھیاں چڑھیں گی بلکہ پیسہ بھی آئے گا۔ ”اثاثہ“ بنانے کے لئے “قومی خدمت” یہ تھی کہ خاتون اینکر کو کہا گیا آپ اُس بڑے ٹی وی چینل کے مرد اینکر سے دوستی کریں، پھر اِس دوستی کو بڑھائیں، اتنا بڑھائیں کہ “ناقابل دید اور ناقابل داد” سٹیج تک پہنچ جائے جہاں پر ہم ایک ایسی نازیبا وڈیو بنا لیں جس کی بُنیاد پر ہم اُس مرد اینکر کو بلیک میل کر کے اُس کو اپنی دی گئی لائن پر چلا سکیں۔ابصار عالم مزید لکھتے ہیں کہ گارنٹی دی گئی کہ اُس ویڈیو میں آپ کا چہرہ بالکل بھی ظاہر نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی کو پتہ چلے گا کہ یہ آپ ہیں۔ابصار عالم کے بقول خاتون اینکر نے کہا کہ کرنل “ع” نے مُجھے یہ بات اتنے اعتماد اور بزنس لائک کہی کہ جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہیں، میں نے انکار کر دیا ہے، مُجھے شدید صدمہ اور غُصہ ہے اور میں نے اُسے بہت سخت باتیں کہی ہیں۔اس خاتون کے بتانے پر ابصار عالم نے کہا آپ نے بالکل ٹھیک کیا ہے، آپ پریشان نہ ہوں اللہ مدد کرے گا۔کُچھ دنوں بعد اُس آفیسر نے (جو اب ریٹائر ہو چُکا ہے) اُس خاتون اینکر کو انتہائی ڈھٹائی سے یہی “آفیشل” آفر دوبارہ کی اور بحث کے دوران کہا کہ آپ کس مذہب اور اخلاقیات کی بات کر رہی ہیں، یہ سب کام تو سعودی عرب کی ایجینسیاں بھی ایسے ہی کرواتی ہیں، اس لئے آپ مزید سوچ لیں، بہت اچھا موقع ہے اگر آپ نے ضائع کر دیا تو آپ کے لئے فیلڈ میں مُشکلات بڑھ جائیں گی۔خاتون اینکر نے پھر انکار دیا۔ اور ساتھ ہی اُس مرد اینکر کو بتا دیا کہ آپ کے خلاف یہ پلان بن رہا ہے اور مُجھے اس کام کے لئے آفر کی گئی ہے۔
کرنل ع کی آفر دو بار مسترد کرنے کے کُچھ دنوں بعد عمران خان سے انٹرویو کے دوران اپنی صحافیانہ جبلت کے ہاتھوں مجبور اُس خاتون اینکر نے کُچھ ایسے سوالات پُوچھ لیے جنہوں نے ثاقب نثار کے “صادق و امین” کا موڈ خراب کر دیا اور اگلے ہی دن اُس خاتون اینکر کو ٹی وی چینل سے نکال دیا گیا۔ابصار عالم لکھتے ہیں کہ وہ خاتون اینکر بتول راجپوت تھی جس نے کہا کہ اگر آپ میرا نام ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ آپ کا ہے۔ مُجھے آپ کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ اس لئے میں نام اُن کی رضامندی سے ظاہر کر رہا ہوں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ صحافت میں کام کرنے والی اور نئی آنے والی لڑکیوں کو یہ پیغام اور حوصلہ ملے کہ اگر آپ کی صحیح راستے پر چلنے کی نیت ہے تو کبھی کمزوری نہ دکھائیں، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہیں، اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ آپ کی مدد کرے گا اور مُشکلات سے نکال دے گا۔بتول راجپوت کہتی ہیں کہ وہ خود اپنے بارے میں یہ بات کسی کو نہیں بتانا چاہتی کیونکہ وہ سستی شُہرت نہیں چاہتی تاہم مرد اینکر کا نام اس لئے ظاہر نہیں کیا کہ میرے پاس اُس کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم صحافی وحید مرا نےایک ٹویٹ میں بتا دیا ہے کہ وہ صحافی سلیم صافی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں