اسلام آباد (پی این آئی) صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ میں کیس پر اٹارنی جنرل پر عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کو اپنا ذاتی وکیل مقرر کردیا ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اٹارنی جنرل پر عدم اعتماد کا اظہارکردیا ہے، صدر مملکت عارف علوی نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا ذاتی وکیل مقرر کردیا ہے، صدرمملکت کے سیکرٹری نے عدالت میں بیان دیا کہ اٹارنی جنرل اپنا ذہن واضح کرچکے ہیں۔
جس کے باعث صدر مملکت نے سلمان اکرم راجہ کو اپنا ذاتی وکیل مقرر کیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کو صدر مملکت کے وکیل کے طور پر دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے وکیل پیش ہونے کی اجازت دے دی ہے۔دوسری جانب نیوز ایجنسی کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔حکم نامہ 9 رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا، سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ تحلیل ہوگیا، بینچ کی تشکیل نو کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجوا دیا گیا۔23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا کہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔ 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیے گئے آرڈر کے ساتھ چلنا ممکن نہیں، اس عدالت کی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھنا ممکن نہیں، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنیکی آئینی و قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں کیا اسمبلیاں آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے توڑنا آئینی خلاف ورزی ہی اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔
اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنیکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں