اسلام آباد (پی این آئی) سینئر سیاستدان چوہدری نثار نے کہا ہے کہ شہبازشریف کا مشیر ہوتا تو ان سے کہتا کہ حکومت نہ لو، شہبازشریف سے کہتا اگر حکومت لینی ہے تو فوری انتخابات کرادو،غیرمتنازع انتخابات کیلئے غیرمتنازع نگران حکومت بننی چاہیئے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کا مشیر ہوتا تو ان سے کہتا کہ حکومت نہ لو، شہبازشریف سے کہتا اگر حکومت لینی ہے تو فوری انتخابات کرادو،الیکشن اسی سال ہوں گے ضمنی انتخابات ہوں یا عام انتخابات ہوں۔ملک میں غیرمتنازع انتخابات ہونے چاہئیں، کیونکہ پہلے بھی متنازع الیکشن تباہی کا موجب بنے، انتخابات دو ماہ آگے یا پیچھے ہوں لیکن غیرمتنازع ہونے چاہئیں، غیرمتنازع انتخابات کیلئے غیرمتنازع نگران حکومت بننی چاہیئے، نگران حکومت ہر جماعت کے اتفاق رائے سے بنے۔انہوں نے کہا کہ میں تنقیدی سیاست میں نہیں پڑوں گا ،اس طوفان بدتمیزی میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتے۔یہ الیکشن میں نے آزاد لڑنا ہے، کسی جماعت کی دم پکڑ کر الیکشن نہیں لڑوں گا، صرف عوام کا ہاتھ پکڑوں گا۔ الیکشن کے بعد جب سمجھ آگئی کہ کون سی جماعت بہتر ہے اس میں شامل ہوجاؤں گا۔ چوہدری نثار نے مزید کہا کہ عمران خان نے کسی کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے اتنی کوشش نہیں کی،جتنی میرے لیے کی۔میں میدان میں آچکا ہوں۔چاہتا ہوں الیکشن کے بعد کسی جماعت میں عزت کے ساتھ جاؤں۔وزیرتو میں جنرل ضیاء،جونیجواور غلام اسحاق خان کا بھی تھا، عمران خان نے مجھ سے دوستی نبھائی اور آج بھی نبھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں میدان میں ہوں۔ عزت عہدوں سے نہیں آتی۔ چوہدری نثار نے مزید کہا کہ الیکشن آج ہوں یا کل ہوں۔ الیکشن چاہے دو ماہ بعد ہوں یا 10 سال بعد ہوں،میں میدان میں آ چکا ہوں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ملک انتہائی نازک موڑ پر رہے اور ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں۔
سیاست میں گالم گلوچ عام ہو گئی ہے،کھائی کے بالکل کنارے پر پہنچ گئے ہیں۔جو لوگ آج مشرف کا جھنڈا اٹھا رہے ہیں، پہلے بینظیر کے نعرے لگاتے تھے۔بعد میں یہ مشرف کے ہو گئے اور آج عمران خان کے ساتھ ہیں۔قبل ازیں چوہدری نثار نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ میں نے سہا اور برداشت کیا وہ عوام کے سامنے لانا چاہتا ہوں۔جو کچھ میں نے نظر انداز کیا، جو کچھ میری پارٹی بالخصوص میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی کا کردار قوم کے سامنے لانا چاہتا ہوں۔ان کے ساتھ اپنے اختلافات سے متعلق ایک ایک لفظ قوم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔یہ ایک ہجاب ہے جو مجھے زیادہ زبان کھولنے سے منع کرتا ہے۔34 سال میں جماعت کی ایک ایک اینٹ میں نے رکھی۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب حالات اتنے خراب تھے کہ ہمیں جنرل کونسل کی میٹنگ کے لیے اسلام آباد اور پنڈی میں کوئی ہوٹل جگہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ نوازشریف ہم سے زیادہ اہل نہیں تھے ، ہم سے زیادہ سیاسی ذہن کے مالک نہیں تھے لیکن ہم 20 سینئر لوگوں کی وجہ سے وہ پارٹی صدر بنے اور آج ان بیس لوگوں میں سے ایک بھی نوازشریف کے ساتھ نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں