اسلام آباد(پی این آئی)چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نور عالم خان نے کہا ہے کہ تحقیقات نہ کرنے والے نیب افسران کی انکوائری وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور آڈٹ حکام کو دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے خیبرپختونخوا میں متعدد منصوبوں کی تحقیقات کا حکم دیا لیکن کمیٹی کے سامنے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی منصوبوں اور طیبہ گل کے کیسز میں ہدایات کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ڈپٹی چیئرمین نیب ظاہر شاہ نے پی اے سی کو بتایا کہ بینک آف خیبر میں کرپشن اور 70 سے زائد غیرقانونی تعیناتیوں کی تحقیقات کیلئے اسٹیٹ بینک نے اجازت دے دی ہے، مالم جبہ ریزورٹ پر حکم امتناع ہے جبکہ منصوبہ وفاقی حکومت کی زمین پر بنایا گیا اور بولی کو کنٹرول کیا گیا تھا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبائی حکومت 15 سال کی لیز دے سکتی تھی لیکن 33 سال کی لیز دی۔ ظاہر شاہ نے بتایا کہ بلین ٹری سونامی میں 540 افراد نامزد ہیں، پائیدار ترقی منصوبوں میں ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا ملوث ہے جبکہ پشاور بی آر ٹی کی انکوائری کو انویسٹی گیشن میں بدل دیاہے۔ ڈپٹی چیئرمین نیب نے کہا کہ تحقیقات 6 ماہ میں مکمل کریں گے، نیب پی اے سی کے سامنے پیش ہو گا۔
چئیرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ مالم جبہ کیس کا ٹھیکیدار صوبائی وزیر کا فرسٹ کزن تھا، بلین ٹری سونامی میں 6 ارب روپے نقد میں ادائیگی کی گئی، یہ ادائیگی کراس چیک کے ذریعے کی جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو ان لوگوں کی جائیداد اور اکاؤنٹس چیک کرنے کا اختیار ہے، فوری گرفتاریاں نہ کی گئیں تو لوگ فرارہو جائیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں