کوئٹہ (پی این آئی) صوبائی وزیربلوچستان عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کرلیا گیا ہے، صوبائی وزیرمواصلات عبدالرحمان کھیتران کو 3 افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس نے صوبائی وزیربلوچستان عبدالرحمان کھیتران کو 3 افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
اس سے قبل بارکھان میں تہرے قتل واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھتیران نے کہا کہ میرے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، گزشتہ 10دن سے کوئٹہ میں ہوں، میرے علاقے میں نجی جیل یا کوٹھری ہی ڈھونڈ کر دکھائیں۔سردارعبدالرحمان کھیتران نے نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثرغلط ہے کہ ہر سردار یا نواب کی ذاتی جیل ہوتی ہے، میڈیا کو دعوت ہے میرے علاقے میں نجی جیل یا کوٹھری ہی ڈھونڈ کر دکھائیں۔واضح رہے کہ پولیس نے صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ بچوں کی بازیابی کیلئے پٹیل باغ میں کیلئے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے گھر چھاپے میں پولیس نے صوبائی وزیر کےمہمان خانے سمیت گھرکے دیگرحصوں کی تلاشی لی۔اس حوالے سے ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ خان محمد مری کے5بچوں کی بازیابی کیلئے چھاپہ مارا گیا ہے، چھاپے کے دوران خواتین پولیس اہلکار بھی موجود تھیں۔ یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ صوبائی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ڈی آئی جی لورا لائی ڈویژن جے آئی ٹی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ اس میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ اور اسپیشل برانچ بارکھان کا نمائندہ بھی شامل ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کسی کو بھی ممبر نامزد کر سکتی ہے، 5 رکنی جے آئی ٹی 30دنوں میں اپنی رپورٹ مرتب کر کے پیش کرے گی۔
اسی طرح مری قبیلے کے سربراہ نواب جنگیز خان مری نے سانحہ بارکھان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دور جدید میں اس طرح کے وحشیانہ، سفاکانہ اور انسانیت سوز واقعات کے رونما ہونے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔مری قبیلے کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں سانحہ بارکھان پر دوٹوک موقف اپنانے ہوئے کہا کہ اگر سردار عبد الرحمان کھیتران اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو وہ فی الفور دیگر پانچ مغویان کو رہا کرکے خود کو بلوچ قوم کے سامنے سرنڈر کریں کیونکہ اس انسانیت سوز مسئلے نے صرف میرے قبیلے نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں