اسلام آباد (پی این آئی) کالم نویس جاوید چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کم سطح پر آگئے تھے ، عمران خان سعودی ولی عہد سے ملنے کیلئے سعودی عرب گئے تو انہوں نے ملاقات کیلئے طویل انتظار کرایا جس پر آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی اور ان کی سفارش پر دونوں کی ملاقات ہوئی۔
اپنے کالم ’سعودی عرب اور عمران خان‘ میں جاوید چوہدری نے لکھا ’’ سعودی حکمران خاندان نے شروع میں عمران خان کا والہانہ استقبال کیا‘ ولی عہد نے عمران خان کو اپنا بڑا بھائی تک ڈکلیئر کر دیا لیکن پھر اچانک عمران خان کے مزاج نے پلٹا کھایا اوریہ تعلقات خراب ہوتے چلے گئے‘ 2019کے وسط میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے اسلامی ملک کے وزیر خارجہ کے کان میں سرگوشی کر دی۔ ہم ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی کا متبادل بنا رہے ہیں‘ اس وزیر خارجہ نے یہ بات سعودی عرب کو بتا دی اور یہاں سے تعلقات میں پہلی دراڑ آ گئی‘ ملائیشیا2014سے کوالالمپور سمٹ کرا رہا تھا لیکن یہ زیادہ کام یاب نہیں ہوتی تھی تاہم 2019 کی کانفرنس ماضی سے مختلف تھی‘ اس میں ترکی اور پاکستان ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی سے بڑی تنظیم کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے اور اس منصوبے کے روح رواں عمران خان تھے‘ یہ ان کا آئیڈیا تھا‘ انھوں نے مہاتیر محمد کو بھی تیار کر لیا اور طیب اردگان کو بھی‘ سعودی عرب اس پر خوش نہیں تھا۔19 دسمبر 2019 کو کوالالمپور سمٹ تھی‘ سعودی عرب چاہتا تھا پاکستان اس میں شرکت نہ کرے‘ عمران خان پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اور یوں تعلقات تقریباً خاتمے تک پہنچ گئے۔
ٹینشن کے اس دور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی حافظ طاہر اشرفی نے اہم کردار ادا کیا‘ یہ سعودی شاہی خاندان کے بہت قریب ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں درمیان میں ڈالا اور انھوں نے بڑی مشکل سے ولی عہد کو عمران خان سے ملاقات کے لیے راضی کیا‘وزیراعظم سے پہلے جنرل فیض حمید اور شاہ محمود قریشی ریاض گئے۔ سعودی وزیر خرجہ نے شاہ محمود کو بہت ٹف ٹائم دیا تاہم جنرل فیض کی میٹنگ تھوڑی سی کام یاب رہی‘قصہ مختصر وزیراعظم 14 دسمبر 2019 کو کوالالمپور سمٹ سے پانچ دن پہلے ایک دن کے لیے ریاض پہنچے‘ یہ رٹز کارلٹن ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے‘ ملاقات کا وقت دن ڈیڑھ بجے تھا‘ تین ساڑھے تین گھنٹے گزر گئے لیکن دوسری طرف سے ’’انتظار کریں‘‘ کا پیغام آتا رہا‘۔عمران خان‘ عمران خان ہیں چناں چہ انھوں نے ہوٹل کے ریستوران میں کھانے کی میز پر کرائون پرنس کے خلاف تقریر شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا ’’میں نے اگر ان سے پیسے نہ لینے ہوتے تو میں ۔۔۔۔ کر دیتا‘‘ہوٹل کا اسٹاف صرف ہوٹل کا اسٹاف نہیں تھا لہٰذا یہ گفتگو دوسری طرف پہنچ گئی‘ قصہ مزید مختصروزیراعظم کے اسٹاف نے آرمی چیف سے رابطہ کیا‘ انھیں درمیان میں ڈالا گیا اور یوں جنرل باجوہ کی کال کے بعد ولی عہد شام ساڑھے چھ بجے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ہوٹل آئے‘ میٹنگ میں فیصلہ ہوا پاکستان کا کوئی وفد کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کرے گا‘ ملاقات ختم ہوگئی۔
وزیراعظم ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو انھوں نے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے سیکریٹری خارجہ کی سربراہی میں وفد کوالالمپور بھجوانے کی ہدایات دے دیں‘ یہ ہدایات بھی سعودی حکام تک پہنچ گئیں‘ وزیراعظم ابھی فضا میں تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں فون آگیا ’’آپ نے آدھ گھنٹے میں وعدہ توڑ دیا‘‘ سعودی عرب کو یقین دلایا گیا ’’ہم وعدہ پورا کریں گے‘‘ اور یوں پاکستان نے ملائیشیا سے معذرت کر لی‘ یہ معاملہ سیٹل ہوگیا لیکن چند دنوں میں دو نئے کٹے کھل گئے۔ وزیراعظم نے واپسی پر کابینہ کے اجلاس میں کرائون پرنس کے رویے کو ناشائستہ اور پاکستان کی توہین قرار دے دیا اور پھر انھیں دس بارہ منٹ پنجابی میں برا بھلا کہتے رہے‘یہ گفتگو دو وزراء نے سعودی سفیر تک پہنچا دی‘ سفیر نے ٹرانسلیشن شروع کرائی تو یہ اطلاع اسٹیبلشمنٹ تک پہنچ گئی‘ حافظ طاہر اشرفی کو ایک بار پھر درمیان میں ڈالا گیا اور انھوں نے بڑی مشکل سے یہ مسئلہ بھی حل کرایا۔دوسرا کٹا طیب اردگان نے کھول دیا‘ ڈیووس میں 21 جنوری 2020 کو ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ تھی‘عمران خان نے وہاں ساری بات طیب اردگان کو بتا دی اور طیب اردگان نے یہ راز میڈیا ٹاک میں پوری دنیا تک پہنچا دیا اور یوں سرد مہری برف میں تبدیل ہو گئی۔‘‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں