عمران خان کا گھر سے دفتر کا سفری خرچ پناہ گاہوں کے بجٹ سے 6 گنا زیادہ نکلا

اسلام آباد(پی این آئی) پناہ گاہوں (شیلٹر ہومز)کو عمران خان کے ٹریڈ مارک پروجیکٹ کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ غریبوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ تاہم دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی رہائش گاہ (بنی گالہ)سے وزیر اعظم ہائوس تک ان کے سفری اخراجات ان شیلٹر ہومز کے کل اخراجات سے تقریبا 6گنا زیادہ ہیں۔دستاویزات کے مطابق پاکستان بیت المال (پی بی ایم)کی زیر نگرانی ملک بھر میں کل39احساس پناہ گاہیں قائم کی گئیں،

اس پروگرام کے تحت بے گھر افراد کو بنیادی طور پر صحت کی دیکھ بھال، رہائش کیلئے محفوظ ماحول، حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار خوراک وغیرہ سمیت متعدد پہلوئوں کا خیال رکھتے ہوئے قابل احترام انداز سے معیاری خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔پروگرام کے آغاز سے اب تک39احساس پناہ گاہیں فعال ہیں، اب تک مالی سال 2022کے مارچ مہینے تک 18کروڑ 30لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے۔بیت المال (پی بی ایم)نے ڈونرز کے ذریعے خوراک کی فراہمی کیلئے

گاڑیاں خریدیں، احساس-کوئی بھوکا نہ سوئے (ای کے بی این ایس)پروگرام کے آغاز سے لیکر اب تک 40گاڑیاں کام کر رہی ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2022تک161.088ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں، غریبوں کے بھلے کیلئے کئے جانے والے اخراجات کے مقابلے میں دیکھیں تو عمران خان نے اپنی رہائش گاہ سے دفتر تک کے سفر کے ذریعے قومی خزانے سے 984 ملین (98کروڑ 40لاکھ سے زائد)روپے خرچ کئے۔یہ تفصیلات پی ڈی ایم کی حکومت نے اقتدار میں

آنے کے بعد سابق وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر استعمال کے اخراجات کے حوالے سے جاری کی تھیں۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے گزشتہ سال اپریل میں جاری کی گئی دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے سفری اخراجات472.36ملین روپے تھے جبکہ سفر سے زیادہ ہیلی کاپٹر کی دیکھ بھال پر زیادہ اخراجات ہوئے جو 511.995ملین روپے رہے۔ان دستاویزات کے مطابق اگست 2018سے دسمبر 2018تک عمران خان کے

سفری اخراجات 37کروڑ 93لاکھ روپے تھے۔ اسی طرح عمران خان کے سفر پر 2019میں 131.94ملین روپے، 2020میں 143.55ملین روپے، 2021میں 123.8ملین روپے اور جنوری سے مارچ 2022کے دوران 35.14ملین روپے خرچ ہوئے۔سفری اخراجات کے علاوہ صرف مالی سال 2018-19کے دوران وزیر اعظم ہائوس اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کا بجلی کا بل149.19ملین روپے تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں