لاہور (پی این آئی) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ پاکستان کو زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کے سبب رواں سال جون میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کے فوراً بعد ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بننا پڑے گا۔
ایک انٹرویومیں مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب یہ پروگرام جون میں ختم ہو گا تو ہمارے پاس ممکنہ طور پر 10ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر نہیں ہوں گے، اس کے نتیجے میں ہمیں قرضوں کے لیے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رابطہ کرنا ہو گا اور ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بننا پڑے گا۔انہوںنے کہاکہ مستقبل قریب میں تقریباً 20ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کے سبب ہمیں یکے بعد دیگرے دو آئی ایم ایف پروگراموں کا حصہ بننا پڑے گا۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے آئی ایم ایف آخری حل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو آئی سی یو میں داخل کرا دیا جائے، آپ اگر آئی سی یو میں جانے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کو صحت مند طرز زندگی اپنانا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم اپنی استطاعت کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے عقلمندانہ معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہوں گے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بچ سکتے ہیں۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اگر ہم اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے تو پھر آئی ایم ایف ہی آخری حل ہے اور ہمیں اس کے پاس جاتے رہنا ہو گا۔ دوسری جانب سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے منی بجٹ دیا جارہا ہے آئی ایم ایف نے پیسے نہ دیئے تو دوست ممالک بھی نہیں دیں گے۔
انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس 3بلین ڈالرزسے بھی کم کے ذخائر ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مہنگائی مزید بڑھے گی جبکہ بجٹ میں11 فیصد مہنگائی کا کہا گیا تھا لیکن مہنگائی27 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ہمارے گردشی قرضے میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے گیس، بجلی اورپٹرول کی قیمتیں بڑھانے پڑیں گی۔شوکت ترین نے کہا کہ ہمارا آئی ایم ایف سے پروگرام ستمبرمیں ختم ہونا تھا ہم اپنا پیٹ اورجیب کاٹ کر قسط ادا کرتے تھے ہماری حکومت روس سے سستا تیل خرید رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم والوں نے ہمارے دورمیں بہت واویلا مچایا، آدھا نقصان مفتاح اسماعیل اورآدھا اسحاق ڈار نے کیا، ڈالرمہنگا ہوتا ہے تو ہر چیز مہنگی ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا کہیں کوئی کنٹرول نہیں ہے،حکومت کوعوام پرآنے والے طوفان کی کوئی فکرنہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں