کراچی (پی این آئی) سابق وزیر خزانہ اور ن لیگ کے سینئر رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ میری جگہ احسن اقبال لگا دیتے تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے بات نہیں کروں گا، یہ سوچ الٹی ہے، اسحاق ڈار کو ایسی باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ 9 ہزار کنٹینرز پورٹ پر کھڑے، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، ایگو کے چکر میں فیکٹریاں بند کرا دیں، کیوں ڈیفالٹ رسک بڑھایا گیا، ملک کو نقصان ہوا، ڈالر کی پالیسی میں سٹیٹ بینک نے بہت غلطیاں کیں۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف معاہدے سے پہلے خود بھی کچھ کر لینا چاہئے تھا، حکومت کو گیس کی قیمت پہلے ہی بڑھا لینی چاہئے تھی، آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا کہا تھا، ہم نے دنیا کے پیسے واپس کرنے ہیں، پاکستان کو اب ایکسپورٹ کو بڑھانا ہو گا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 15 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کرنا ہو گا۔
پنشن ریفارمز کرنی پڑیں گی، ہمیں آبادی کے تناسب سے پلاننگ کرنا ہو گی، پاکستان کا بانڈ اس وقت بیچنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ ہونی چاہیے پاکستان نے کدھر جانا ہے، بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے، ہمیں اپنی پالیسیوں کو دیکھنا ہو گا، ہم کہیں نہ کہیں تو غلطی کر رہے ہیں، پاکستان میں دنیا کی خراب ترین گورننس ہے۔ واضح رہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان کے آئی ایم ایف سے 23 پروگرام ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف ، جنرل مشرف اور عمران خان سمیت سبھی آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے مختلف ادوار میں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے پروگرام کا سلسلہ تاحال ختم نہیں ہوا، ایک یا دو نہیں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ 23 پروگرام ہوئے۔ 1958 میں پہلا پروگرام طے پایا، پاکستان نے آئی ایم ایف سے اڑھائی کروڑ ڈالر کے حصول کا معاہدہ کیا۔ پہلے پروگرام کے بعد سلسلہ رکا نہیں بلکہ چل نکلا، آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے 3 پروگرام ہوئے اور ریکارڈ کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے دو پروگرام ہوئے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شریک ہوا جبکہ نواز شریف کے دوسرے دور میں پاکستان نے دو پروگراموں میں شرکت کی۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا اور دو پروگرام ہوئے۔ پاکستان میں 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت رہی اس دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک پروگرام ہوا، پھر 2013 میں بننے والی نواز شریف حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ایک پروگرام میں شمولیت کی۔ پھر پاکستان تحریک انصاف کا دور آیا، عمران خان وزیراعظم بنے، اس حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا ، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی اور یوں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی اتحادی حکومت بھی آئی ایم ایف سے عمران خان دور میں لئے گئے پروگرام کو مکمل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں