اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان بزنس فورم نے ملک میں معاشی ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فورم کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے دس ماہ میں روپے کی قدر میں 89 روپے کی غیر معمولی کمی کی۔
ڈالر کی فری فلوٹ پالیسی ملکی معیشت کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے، عوام اور انڈسٹری تیار رہے عام انتخابات کے بعد ہم پھر آئی ایم ایف کے در پر ہوں گے، ملک اس وقت فری فال کی طرف گامزن ہے دیگر ممالک کے سامنے ہم مزاق بن کر رہ گئے ہیں، بزنس کمیونٹی سڑکوں پر ہے، غیر ملکی سرمایہ کار آنے کو تیار نہیں۔بتایا گیا ہے کہ پاکستان بزنس فورم نے 7 فروری کو بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں معیشت کے ایجنڈا کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی سرکاری اداروں میں کفایت شعاری کے سخت اقدامات کئے جائیں، ملک کو آئی ایم ایف کا متبادل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے معاشی ترقی کے لیے پاکستان کا فارمولہ ناقص ہے کہ پہلے قرضے لیں۔
کچھ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر بنائیں، اس عمل میں معمولی ترقی کی رفتار حاصل کریں اور اس وقت تک انتظار کریں جب تک کہ ترقی کی یہ تیزی ختم نہ ہو جائے تاکہ ہم دوبارہ اس عمل کو دہرا سکیں، ان حالات میں مہنگائی کا بوجھ حکومت بھی برداشت کرے کیوں کہ 2023 معیشت کے لیے ساز گار نہیں ہوگا۔ادھر حکومت نے آئی ایم ایف کے ایک اور مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے کو 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرادی، اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرادی گئی ہے، اس سلسلے میں ایف بی آر نے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس 2023ء کے ذریعے تقریباً 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کی تجاویز سے آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف کو ریونیو بڑھانے، گردشی قرضہ میں کمی اور معاشی و توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ساتھ توانائی کے استعمال اور مالی کفایت شعاری کے ذریعے اخراجات میں کمی کی بھی یقین دہانی کرائی ہے، آئی ایم ایف نے سیلاب کے نقصانات، گردشی قرضے اور دیگر نقصانات کے باعث پانچ سے ساڑھے 500 ارب روپے کے اضافی ریونیو و نان ٹیکس ریونیو اقدامات کی تجویز دی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں