لاہور (پی این آئی) اسلام آباد پولیس گرفتار پی ٹی آئی رہنماء فواد چوہدری کو لاہور لے آئی جہاں ان کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ اور گھر کی تلاشی لیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت کی پولیس تحریکِ انصاف کے گرفتار رہنما فواد چوہدری کو لر کر لاہور پہنچی، جہاں انہیں پہلے فارنزک سائنس لیبارٹری لے جایا گیا تاہم کچھ ہی دیر بعد پولیس انہیں فرانزک لیب سے واپس لے گئی۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ پولیس فواد چوہدری کو ان کے گھر لے کر گئی جہاں ان کی موجودگی میں گھر کی تلاشی لی جائے گی۔ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، پی ٹی آئی رہنماء کو پولیس کو حوالے کرتے ہوئے 2 روز بعد دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے، اس حوالے سے اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے وکلاء اور پراسیکیوشن کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جس کو سناتے ہوئے عدالت نے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کے خلاف درخواست منظور کرلی اور انہیں مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ اس سے پہلے دوران سماعت اپنے دلائل میں پی ٹی آئی رہنماء کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ جو بات فواد نے کی وہ تو پورا پاکستان کر رہا ہے اور جس کی بات لوگوں کو سمجھ آنے لگ جائے وہ مسئلہ بن جاتا ہے، فواد چوہدری یہیں موجود ہے کہیں نہیں جائے گا اور اگر اسے کوئی مسئلہ بھی ہوا تو پاکستان میں اپنے خرچے پر علاج کرائے گا، فواد چوہدری کے گھر کی تلاشی کے لیے آئیں تو وہ تعاون کریں گے۔ پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ جسمانی ریمانڈ پر نظرثانی سے متعلق فیصلہ موجود ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے مطابق ریمانڈ کے فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے، مجسٹریٹ کے پاس اختیار ہے یا نہیں یہ مجسٹریٹ نے طے نہیں کرنا اور یہ معاملہ سیشن جج نے طے کرکے کیس اس عدالت کو دوبارہ بھیجا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز گِل نے خاتون جج کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ اس سے قبل فواد چوہدری کو سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے جو باتیں کیں ان کو مانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ میرا حق ہے، طاقت ور لوگ ہمیشہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ ان پر تنقید درحقیقت غداری ہے، تاریخ اس بات کا تعین کرے گی کہ کون درست تھا اور کون غلط، طاقت ور لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ عزت اپنے کنڈکٹ سے کرائی جاتی ہے، ڈنڈے سے نہیں، اگر میں منہ پر اچھا اچھا کہوں اور باہر جا کر گالیاں دوں، یہ کونسی عزت ہے؟
اگر آپ تنقید نہیں لے سکتے تو آپ اس طرح کے عہدے نہ لیں۔ فواد چوہدری نے جج سے مکالمے میں کہا میری تضحیک کرکے یہ سمجھ رہے ہیں پتہ نہیں کیا کر لیں گے، میں سابق وزیر، ممبر پارلیمنٹ رہ چکا ہوں اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، یہ کپڑا ڈال کر لانا اور تضحیک کرنا اس کو بھی دیکھ لیجئے گا۔ عدالت نے پراسیکیوشن سے استفسار کیا کہ پولیس نے فواد چودھری سے 2 روز میں کیا تفتیش کی؟ سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ فواد چوہدری کا 2 روز کا جسمانی ریمانڈ ملا لیکن فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کرانا ہے، فواد چوہدری کی ویڈیو لی تاکہ فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کرایا جائے، فواد چوہدری کو فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کے لیے لاہور ساتھ لے کرجانا ضروری ہے، موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز کے ذریعے دیکھنا ہے کہ فواد چوہدری کے بیان کے پیچھے کون ہے؟ پہلے رات 12 بجے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر دیا گیا، صرف ایک دن تفتیش کے لیے ملا، جسمانی ریمانڈ میں صرف وائس میچ کیا گیا، فواد چوہدری کی ایف آئی اے سے وائس میچ کرا لی ہے، فواد چوہدری سے الیکٹرک ڈیوائسز بھی برآمد کرنی ہیں۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کے بیان میں الیکشن کمیشن کا ذکر کہاں ہے؟ کہاں لکھا ہے کہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کو دھمکی دی؟ بیان پر چوہدری پر جرم بنتا کہاں پرہے؟ الیکشن کمیشن کا سیکرٹری انفرادی طور پر الیکشن کمیشن نہیں، الیکشن کمیشن کا کام صرف شفاف انتخابات کرانا ہے، عدالت میں الیکشن کمیشن کا کوئی ایسا فرد موجود نہیں جس کو دھمکی دی گئی ہو، فواد چوہدری کی تقریر سے کیا ملک ٹوٹ جائے گا؟ مذاق بنایا جا رہا ہے، فواد چوہدری نے ایسا کیا کہہ دیا جس سے سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا؟، عدالت سے استدعا کرتے ہیں فواد چوہدری کو کیس سے ڈسچارج کیا جائے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں