کوئٹہ(پی این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن )کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گالم گلوچ اور الزام تراشی کی سیاست ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی، تمام مسائل کا حل آئین میں موجود ہے،اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، معیشت، سیاست اور دیگر مسائل کا حل آئین میں موجود ہے، جو خرابیاں 10 سے 20 سال میں پیدا ہوئیں وہ 8 ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتیں، موجودہ مسائل کے ذمہ دار سیاستدان، فوجی، بیوروکریٹ،
اور میڈیا سمیت ہم سب ہیں، عدلیہ بھی ان فیصلوں کو دیکھے جس کے اثرات ملک پر پڑے۔یہ بات انہوںنے اتوار کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع پر بلوچستا ن پیس فورم کے سربراہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، مفتاح اسماعیل اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کل کوئٹہ میں قومی ڈائیلاگ منعقد ہوا تھا جس میں ہم سب سے غیر جماعتی بنیادوں پر ملکی مسائل سے متعلق گفتگو کی۔
انہوںنے کہاکہ ہم سب ملکی سیاسی صورتحال کے ذمہ دار ہیں، ہم آئین کی بات کرتے ہیں لیکن آئین پر مکمل عمل نہیں کرتے، آج کی سیاست انتقام اور دشمنی کی سیاست بن گئی ہے، آج سیاست ایک دوسرے کو گالی دینے اور الزامات لگانے کا نام ہے، یہ سیاست ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ان سب مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک فورم رکھا جس کی ابتدا کوئٹہ سے ہوئی ہے، حقائق وہ نہیں جو ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں یا اخبارات میں بتائے جاتے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ ملک کے حقائق بہت تلخ ہیں، پاکستان کے پاس مسائل کو کوئی معجزاتی حل نہیں ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملکی مسائل حل ہوں تو ہمیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین کے مطابق تمام فیصلے کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے بلوچستان کے مسائل کی وجہ یہاں کے غیر نمائندہ لوگ ہیں جو اسمبلی میں بھیجے جاتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ لسٹیں بنا کر کسی کو جتوادیں اور کسی کو ہرا دیں
بلوچستان کے پارلیمنٹرینز کیا بلوچستان کے مسائل کا حل تلا ش سکے یا انکی نمائندگی کر رہے ہیں یہی تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل آئین پر عملدآمد پر ہے اگر ملک کو نئے آئین کی ضرورت ہے تو وہ بھی کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئیں ہیں انکا ازالہ کرنا چاہیے یہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے اثرات کو دیکھے جو پاکستان پر ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ
بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کی بجلی اور گیس انہیں دے دی جائے تا کہ صوبے خود انہیں چلائیں اس بات کی تجویز بطور وزیر اعظم سی سی آئی میں بھی دی تھی لیکن آج تک اس پر کوئی قرار داد نہیں آئی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو حوصلہ اور سہولت دے تاکہ وہ کارخانے لگائیں جس سے روزگار پیدا ہو لیکن ہم اس کام کو کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے بے روزگاری اور درآمدات میں کمی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ انتخابات جب ہونگے
ہم نے جس جماعت میں ہم ہیں ہم اسی سے انتخابات لڑیں گے ہم ملک کے مسائل کے حل کی بات کر رہے ہیں جس پر کوئی سیاستدان یا میڈیا ہمیں بات کرتا نظر نہیں آتا ،ملک کو آئین کے دائرہ کار میں لانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ حقائق دیکھنے چاہیے کہ ہم نے سیندک بنایا جس میں 28ارب روپے کا نقصان ہوا جس کے بعد دوسری کمپنی آئی ہے جس نے معاہدے کے تحت سیندک کو چلایا ہے جس سے صوبے کو ہر سال 2سے 3ارب ملتے ہیں یہ بلوچستا ن اسمبلی اور
قومی اسمبلی کا کام ہے کہ وہ حقائق لوگوں کے سامنے لائیں سیندک کے اختیارات صوبے کے پاس ہیں کہ وہ سیندک معاہدے کے نتائج اور فوائد کا جائزہ لے لیکن یہ حقائق عوام کے سامنے لانا ضروری ہے ۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کہا کہ ہمارا سماج جس بحران سے گز رہا ہے اس میں مکالمے کی ضرورت ہے مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے گوادر میں لوگ بنیادی حقوق کے لئے احتجاج کر رہے تھے
لیکن انہیں ریاست نے جیلوں میں ڈالا ہمارا مطالبہ ہے کہ جن لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے انکے کیسز واپس لیکر رہا کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت مفلوج ہے اور کسی اور کے ریموٹ کنٹرول پر چلتی ہے ہمارا ریاست سے مطالبہ ہے ڈائیلاگ کے آغاز سے پہلے اعتماد کی فضاء بحال کی جائے بلوچستان کے مسائل کا حل سماجی معاشرتی آئینی عملداری میں ہے یہ عملداری بلوچستان کو یہ دی جائے تاکہ ہم خوشحال اور دیگر قوموں کے برابر آسکیں ۔
سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ معیشت مشکل حالات سے گزر رہی ہے ہمیں اس سال 21ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں ایک ملک سے قرض لیکر دوسرے ملک کو دیا جاتا ہے پاکستان پر 51ہزار ارب کا قرض ہے بیرونی ممالک کا قرض 25ہزار ارب تک ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ،بے روزگاری بڑھ رہی ہے قرض کی وجہ سے تعلیم و صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات پر حکومت پیسے خرچ نہیں کر سکتی ملک میں گنجائش نہیں ہے کہ
مزید پیٹ کاٹیں ہمیں ایکسپورٹ اور زراعت کو بڑھانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت او ر قوم معاشی سمت کا تعین کریں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار ماہ میں حکومت نے سخت فیصلے نہیں کئے جس سے معیشت کا نقصان ہوا مگر اب حکومت نے آئی ایم ایف سے بات چیت کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے معیشت کے مسائل حل ہونگے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں