لاہور(پی این آئی)پنجاب کے وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پی ڈی ایم کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے امیدوار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حمزہ شہبازکی جگہ مسلم لیگ نون کے چار‘پانچ اراکین صوبائی اسمبلی کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے چوہدری پرویزالہی کی کامیاب حکمت عملی کے تحت مسلم لیگ نون نے پیچھے ہٹتے ہوئے اپنی ناکامی کو تسلیم کرلیا ہے اب پی ڈی ایم کی دوبڑی جماعتیں جن اراکین پنجاب اسمبلی کے ناموں پر غور کررہے ہیں ان سب کا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے اس میں اپنے اراکین کے نام دینے سے انکار کردیا ہے. ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویزالہی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو قائل کیا تھا کہ پی ڈی ایم کو میدان خالی دینے کا مطلب ہوگا کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنی مرضی کے نگران سیٹ اپ سمیت ‘مرضی کے افسران ‘حلقہ بندیاں اور ووٹرلسٹوں کو ازسرنو مرتب کرواکرپوری پولنگ سکیم پر اثراندازہوسکے۔چوہدری پرویزالہی اور ان کے صاحبزادے چوہدری مونس الہی کی جانب سے تفصیلی بریفنگز کے بعد عمران خان وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویزالہی کی حکمت کے تحت پنجاب کے معاملات چلانے پر آمادہ ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین کی خصوصی نشستوں پر منتخب ہونے والی وحدت اسلامی کی منحرف رکن صوبائی اسمبلی سمیت تحریک انصاف اور مسلم لیگ قائداعظم کا کوئی بھی رکن نہیں ٹوٹ سکا اور ایوان میں عددی لحاظ سے چوہدری پرویزالہی کو برتری حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون پیچھے ہٹتی نظرآرہی ہے بتایا جارہا ہے کہ ایوان میں اپوزیشن کے اراکین کی حاضری گزشتہ روزکم تھی جس کا مطلب ہے کہ اراکین کو توڑنے اور فاورڈ بلاک بنانے کا پی ڈی ایم کا منصوبہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو ہی الٹا پڑگیا ہے اور آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کاٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش منددونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اراکین پنجاب اسمبلی کا ایک بڑا گروپ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے والے دن ایوان سے غیرحاضر رہنے کا قوی امکان ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون اورپیپلزپارٹی کے اراکین کا ایک بڑا گروپ ٹکٹ کی امیدپر رضاکارانہ طور پر تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالہی کی درپردہ حمایت کررہا ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کا یہ گروپ اپنی قیادت سے نالاں ہے جبکہ بطور وزیراعلی چوہدری پرویزالہی سے بلاتفریق تمام جماعتوں کے اراکین کو ترقیاتی فنڈزفراہم کیئے ہیں اس کے علاوہ وہ ہروقت اراکین پنجاب اسمبلی کو دستیاب رہتے ہیں جبکہ نون لیگ کی قیادت کے بارے میں اراکین کا کہنا ہے کہ بطور وزیراعلی شہبازشریف سے ملاقات کے لیے انہیں مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ذرائع نے بتایا کہ گورنرپنجاب یا وفاقی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے مس ایڈوینچرکی صورت میں قانونی ٹیم کی تیاری مکمل ہے ایسی کسی بھی صورتحال میں فوری طور پر اعلی عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا‘ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ رول آف بزنس کے تحت اگر اسمبلی کااجلاس جاری ہو تو گورنر نیا اجلاس سمن کرنے کا مجازنہیں جبکہ ایوان اقبال میں جواجلاس ہوا تھا اس کے بارے میں مسلم لیگ نون اور گورنر کا کہنا تھا کہ وہ اجلاس جاری ہے تاہم یہ اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی اجلاس کو رولنگ دے کرختم کرسکے انہوں نے کہا کہ ایک تو اسمبلی کا اجلاس ایوان سے باہر نہیں ہوسکتا لہذا وہ اجلاس سرے سے ہی غیرآئینی تھا اور اگر اس کی حیثیت کو تسلیم کربھی لیا جائے تو اعلی عدلیہ کے فیصلے کے بعد وہ غیرموثرہوچکا ہے.
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں