لاہور(پی این آئی) سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ عدم اعتماد میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو نیوٹرل رکھا۔انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ساتھ مثالی تعلقات نہیں بنے۔
عہدے پر رہتے ہوئے بھی عمران خان سے کوئی آئیڈیل تعلقات نہیں تھے،پہلے بھی عہدہ چھوڑنا چاہتا تھا پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے گورنر شب لینا پڑی۔دو تہائی اکثریت خواب میں مل سکتی ہے،عمران مقبول ہیں مگر نشستیں اتنی نہیں ملیں گی۔اگر دوتہائی اکثریت چاہیے تو پورے ملک سے عمران خان کو خود الیکشن لڑنا ہو گا۔چوہدری سرور نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو حلقوں میں ترقی نہ ہونے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔عمران خان کو سوچنا ہو گا کوئی بھی انسان عقل کل نہیں ہوتا۔سیاسی جماعتوں میں فیصلے مشاورت سے ہی ٹھیک رہتے ہیں۔مغرب کی جمہوریت کے بارے میں بات کی بجائے 10 فیصد عمل کیا ہوتا تو بہتر تھا۔چوہدری سرور نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کان میں کوئی بھی بات کی جائے تو پہلے تصدیق کر لیں۔پاکستان میں سب سے پہلے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے،شفاف الیکشن کس طرح کروانے ہیں اور معیشت کو درست کس طرح کرنا ہے؟۔تمام سیاست دانوں کو مشکل وقت میں اکٹھے مل کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
غریب آدمی ملک میں پس گیا ہے، انصاف نہیں ملتا، آٹا نہیں خرید سکتا۔ہمیں ماضی کے غلط فیصلوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔چوہدری سرور نے دعوی کیا کہ پی ٹی آئی کو 2018 میں حکومت بناتے وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔حکومت جانے کے بعد عمران خان نے خود تسلیم کیا عدم اعتماد کو روکنا چاہیے تھا۔یہ بات واضح ہے کہ عدم اعتماد میں اسٹیبلشمنٹ نے خود کو نیوٹرل رکھا۔سابق گورنر نے واضح کیا کہ میں اب پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ہوں،پیپلز پارٹی رہنما سے تعلق ہے اس لیے کھانے پر اکٹھے ہوئے،جس جماعت میں شمولیت اختیارکروں گا اس کا اعلان کروں گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں