اسلام آباد، لاہور (پی این آئی) سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مبشر لقمان نے بتایا کہ کپتان کی ایک نہیں، تین چار ویڈیوز لیک ہونے والی ہیں جو کسی ادارے نے نہیں بلکہ ان کے قریبی شخص نے موبائل فون سے ریکارڈ کی ہیں، ان کاکہناتھاکہ کئی لوگ یہ ویڈیوز دیکھ چکے ہیں اور اتنی غلیظ ہیں کہ دیکھنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگارہے ہیں۔
اپنے ولاگ میں مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ” سوال یہ ہے کہ اتنی ویڈیوز کس نے بنائیں؟ جواب یہ ہے کہ کئی دفعہ اہتمام کرنے والے بھی ہجت تمام کر جاتے ہیں، اسی طرح کی کہانی میرے کپتان کی ہے ، خبر یہ ہے کہ ویڈیو آ نہیں رہیں بلکہ آ چکی ہے ، کئی لوگوں نے تو کہا ہے کہ وہ ویڈیوز پہلے دیکھ چکے ہیں اور جنہوں نے دیکھی ہے وہ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں ، توبہ استغفار کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی لیڈر اتنا میلا، اتنا غلیظ، اتنا گندہ ہو سکتا ہے؟ اگلے چند دن میں کسی وقت بھی وہ ویڈیوز مارکیٹ میں شاید آجائیں تو ایک بار پھر پوری دنیا کپتان کے سیاہ کارناموں کی گواہ بنے گی اور مجھے بتایا گیا کہ دیکھنے والوں میں کچھ صحافیوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کے کچھ اپنے ساتھی بھی شامل ہیں ۔مبشر لقمان کاکہناتھاکہ یہ ویڈیوز کسی ادارے نے نہیں ریکارڈ کیں بلکہ موبائل سے ریکارڈ ہوئی ہیں اور جس نے ریکارڈ کی ہیں وہ بھی عمران خان کا کافی قریبی بندہ ہے، اب یا تو وہ عمران خان کے سابقہ ساتھیوں میں سے ہو سکتا ہے یا پھر موجودہ ساتھیوں میں سے جو عمران خان کے لیے باقاعدہ شباب کا اور باقی دوائیوں کا انتظام کرتا رہا کیونکہ اسی طرح کا کام تو کوئی بہت ہی قریبی دوست کر سکتا ہے۔
وہی کپتان کے حجرے میں داخل ہو سکتا ہے جس کے ساتھ نا صرف اچھے مراسم ہوں بلکہ بے انتہا اچھے مراسم ہوں، ویسے عمران خان کے قریبی جن لوگوں کے پانچ سال پہلے فون چوری ہوئے تھے اور خبریں میڈیا کی زینت بنی تھی ،تب یہ افواہ اڑائی گئی تھی کہ ان فونز میں عمران خان کی کچھ نازیبا حرکات ریکارڈ ہیں ، اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ڈیٹا انہی کے فون سے نکلے گا ۔سینئر صحافی کا مزید کہنا تھاکہ دوسری طرف اب عمران خان کو یہ بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے والے آہستہ آہستہ سائیڈ پر ہونے لگے ہیں یعنی جو عمران خان کی عزت کے رکھوالے تھے اور عمران خان کا بت تراش کے لوگوں کو دکھانے والے تھے اب وہ خود آہستہ آہستہ ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اب تو وہ کردار بھی سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے شہباز شریف کی آڈیو لیک کی، اب وہ وقت دور نہیں ہے جب پتا چلے گا کہ سب کچھ عمران خان کی مرضی اور ان کے کہنے پر ہوتا رہا کیونکہ منصوبہ ہی کافی لمبا تھا۔
عمران خان کو شاہ جہان بنا کر اگلے دس سال تک حکومت میں رکھنے کا منصوبہ تھا اور اسی منصوبے کے تحت آخری وقت تک ایڑیاں رگڑی گئیں تاکہ عمران خان شاہ جہان بن سکے اور اپنی مرضی کا سپہ سالار بنائے ،عمران خان شاہ جہان بنا اور نہ ہی اس کا مشیر خاص ، اس لیے عمران خان کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں ،ان کے خواب میں الیکشن کے بھوت بار بار ان کو تنگ کر رہے ہیں ۔مبشر لقمان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے جن سے فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ میں تعاون کی امیدیں لگائی ہوئی ہیں وہ بھی جلد منظر عام سے غائب ہونے لگے ، اس لیے کبھی اعظم سواتی کو بہانہ بنا کر تو کبھی مہنگائی بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کو بہانہ بنا کر، دوبارہ سڑک پہ آنے کا کسی نہ کسی طرح بہانہ ڈھونڈا جا رہا ہے، بس مرشد کا انتظار ہے ، مرشد جیسے ہی گرین سگنل دے گا اور ستاروں کی چال ڈھال بتائے گا ، اسی وقت عمران خان کی ٹانگ بھی ٹھیک ہو جائے گی اور وہ دوڑنے کے بھی قابل ہو جائے گا ، اب عمران خان کے چاروں طرف مشکلات ہیں ،انہیں یہ سمجھ آ رہا کہ پنجاب میں دال نہیں گلنی، اس لیے اب اسلام آباد جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں تخت پر اب کوئی دوسرا سوار ہونے والا ہے اور اب جب کوئی دوسرا سوار ہو گا تو پھر گرفتاری کا خطرہ بھی بڑھے گا لیکن اسلام آباد کے مضافات کے لوگوں نے بھی خبردار کر دیا ہے کہ وفاقی حکومت کی پہنچ کے قریب ہو جائو گے تو گرفتاری کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔
اس لیے اب بار بار محمود خان سے درخواست کر کے ایک بار پھر خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹر پہ جھولا جھولنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے تاکہ وفاق کی پہنچ سے دور جایا جا سکے۔ان کا مزید کہنا تھاکہ یہ بھی سنا ہے کپتان کو چھپکلی سے بڑا ڈر لگتا ہے اور جیل میں تو بہت زیادہ چھپکلیاں ہوں گی ،اس لیے آخری امید خیبر پختونخوا ہے ، اگر وہ کے پی کے چلے گئے تو ایک اور بات کنفرم ہو جائے گی کہ اگلے آنے والے سال تک کم از کم کے پی کے کی اسمبلی بھی تحلیل نہیں ہونے جا رہی کیونکہ اگر وہ اسمبلی بھی تحلیل ہو گئی تو پھر تو نا اہلی پکی، گرفتاری پکی، اب آپ کو سمجھ آ گیا ہو گا کہ تحریک انصاف کے لوگوں کا کیوں پارلیمنٹ لاجز پہ قبضہ برقرار رکھا جاتا ہے، سیکیورٹی اور پروٹوکول بھی لیا جاتا ہے، سرکاری گاڑیوں میں سیریں کی جاتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیٹھنے سے جان جاتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں