لاہور(پی این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ منتخب حکومت پر رات کے اندھیرے میں شب خون مارنے کی کوشش ناکام ہوگئی، عدالت نے گورنر کی آئین شکنی کا راستہ روک دیا، پنجاب کے عوام کو مبارک ہو، سلیکٹڈ گورنر نے آرٹیکل 58(2)بی بحال کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ گورنر کے خلاف آج صوبائی اسمبلی کی قرارداد اہمیت کی حامل ہے۔اس قرارداد کی روشنی میں صدر سے درخواست کر رہے ہیں کہ گورنر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی عمل میں لائی جائے اور فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ حتمی ہے عمران خان کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد ہوگا۔ امپورٹڈ حکومت انتخابات سے بھاگنا چاہتی ہے۔ہم امپورٹڈ حکومت کو عوام کے کٹہرے میں پیش کریں گے اور حتمی فیصلہ عوام کا ہوگا۔پنجاب کے عوام کو مبارک ہو کہ آج عدالت نے گورنر کی آئین شکنی کا راستہ روک دیا۔ رات کے اندھیرے میں منتخب حکومت پر شب خون مارنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔
امپورٹڈ حکومت کے سلیکٹڈ گورنر نے آرٹیکل 58(2) b بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا راستہ روک دیا گیا ہے۔اسی طرح مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء چودھری مونس الٰہی نے عدالتی فیصلے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، عدالت نے اعتماد کے ووٹ کیلئے کہا ہے ، جس دن اعتماد کا ووٹ لیں گے اسی روز اسمبلی توڑ دیں گے۔یاد لاہور ہائیکورٹ نے اعتماد کا ووٹ لینے تک اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیان حلفی عدالت کو فراہم کیا، جس پر عدالت نے وزیر اعلٰی پنجاب کو عہدے پر بحال کر دیا ہے، عدالت کی جانب سے گورنر پنجاب کا چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا۔
اسی طرح ترجمان پی ٹی آئی فواد چودھری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عدالت میں ہمارا مئوقف درست ثابت ہوا ، عدالت نے گورنر کے نوٹیفکیشن کو معطل کردیا ہے، اسپیکر کو کہا آپ اجلاس بلائیں اور وزیراعلیٰ کا اعتماد کا ووٹ لیں، لیکن اسپیکر کہہ رہا کہ منظور وٹو کے معاملے کی طرح اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے گورنر کو دس روز کا وقفہ دینا چاہیے۔ترجمان پی ٹی آئی فواد چودھری نے الزام عائد کیا کہ کہا جارہا ہے کہ چیف سیکرٹری نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حق میں نہیں تھے، وہ کلیئر تھے کہ نوٹیفکیشن نہیں ہوسکتا، انہوں نے گورنر کو لیٹر لکھ کہ اس پر قانونی رہنمائی چاہیے، لیکن چیف سیکرٹری کو ان کے آفس میں بند کردیا گیا اور زبردستی دستخط کروائے گئے، صوبے کے سب سے بڑے بیوروکریٹ کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا امید ہے وہ خود آکر بتائیں گے، کہ کس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔
دیکھتے ہیں چیف سیکرٹری یہ سب بتانے میں کتنا وقت لیتے ہیں،اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ گورنر پنجاب کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی شروع ہونی چاہیے۔ چیف سیکرٹری کو کل پنجاب اسمبلی میں بلا کر پوچھا جائے گا کہ غیرآئینی کام کی جرات کیسے ہوئی؟ وزیراعلیٰ کو منتخب کرنے اور ہٹانے کا اختیار اسمبلی کو ہے، عدالت نے گورنر کی غیرآئینی اقدام کو مسترد کیا، ہمیں جو انڈرٹیکنگ دی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اگلی تاریخ تک اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی،ہم نے عدالت کہنے پر انڈرٹیکنگ دی ہے، کہ اگلی تاریخ تک اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے، گورنر کا اعتماد کے ووٹ کا بھی شوق پورا کردیں گے، آپ ایک ہفتہ لیں دو ہفتے اسمبلیاں تحلیل ہوکر رہیں گی ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں