لاہور(پی این آئی ) ترجمان پی ٹی آئی فواد چودھری نے الزام عائد کیا ہے کہ چیف سیکرٹری کو آفس میں بند کرکے ڈی نوٹیفائی نوٹیفکیشن پر زبردستی دستخط کروائے گئے،چیف سیکرٹری اپنی پوزیشن پر واضح تھے کہ نوٹیفکیشن نہیں ہوسکتا، امید ہے وہ خود آکر بتائیں گے کہ انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔
انہوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عدالت میں ہمارا مئوقف درست ثابت ہوا ، عدالت نے گورنر کے نوٹیفکیشن کو معطل کردیا ہے، اسپیکر کو کہا آپ اجلاس بلائیں اور وزیراعلیٰ کا اعتماد کا ووٹ لیں، لیکن اسپیکر کہہ رہا کہ منظور وٹو کے معاملے کی طرح اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے گورنر کو دس روز کا وقفہ دینا چاہیے، کہا جارہا ہے کہ چیف سیکرٹری نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حق میں نہیں تھے، وہ کلیئر تھے کہ نوٹیفکیشن نہیں ہوسکتا، انہوں نے گورنر کو لیٹر لکھ کہ اس پر قانونی رہنمائی چاہیے، لیکن چیف سیکرٹری کو ان کے آفس میں بند کردیا گیا اور زبردستی دستخط کروائے گئے، صوبے کے سب سے بڑے بیوروکریٹ کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا امید ہے وہ خود آکر بتائیں گے، کہ کس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔دیکھتے ہیں چیف سیکرٹری یہ سب بتانے میں کتنا وقت لیتے ہیں،اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ گورنر پنجاب کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی شروع ہونی چاہیے۔
چیف سیکرٹری کو کل پنجاب اسمبلی میں بلا کر پوچھا جائے گا کہ غیرآئینی کام کی جرات کیسے ہوئی؟ وزیراعلیٰ کو منتخب کرنے اور ہٹانے کا اختیار اسمبلی کو ہے، عدالت نے گورنر کی غیرآئینی اقدام کو مسترد کیا، ہمیں جو انڈرٹیکنگ دی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اگلی تاریخ تک اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی،ہم نے عدالت کہنے پر انڈرٹیکنگ دی ہے، کہ اگلی تاریخ تک اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے، گورنر کا اعتماد کے ووٹ کا بھی شوق پورا کردیں گے، آپ ایک ہفتہ لیں دو ہفتے اسمبلیاں تحلیل ہوکر رہیں گی ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں