لاہور(پی این آئی)سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سیات میں انٹری کی خبروں کے بعد اہم سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا فوجی افسر ریٹائرمنٹ کےبعد 2سال تک سیاست میں حصہ لے سکتا ہے؟ اس حوالے سے سابق لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب نے بتا یا ہے کہ’یہ سخت آرڈر ہے اور فوج کے ڈسپلن کا حصہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے 2 سال تک تقاریر، انٹرویوز یا سیاست میں حصہ نہیں لیا جا سکتا۔
اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی اور اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کریں گے تو محکمانہ کارروائی ہو گی۔‘اس سوال پر کہ اگر کوئی ریٹائر آفیسر قواعد کی خلاف ورزی کرے تو پھر محکمہ کیا کارروائی کرتا ہے؟ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ’اس متعلقہ افسر کی پینشن روک لی جاتی ہے یا دیگر مراعات بند کر دی جاتی ہیں یا کم کر دی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ کوئی ایسا اقدام نہیں جس سے کورٹ مارشل یا کوئی سزا دی جائے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’2سال پورے ہونے کے بعد آپ بولنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن 2سال کے بعد بھی اگر غیر ملکی میڈیا انٹرویو کے لیے رابطہ کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے پہلے مشورہ کر لیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون یا قواعد ضابطے نہیں ہیں لیکن کسی بھی مستقبل کی پریشانی سے بچنے کے لیے مشورہ کر لینا بہتر ہے تاکہ اگر منہ سے کوئی بات نکل بھی جائے تو بعد میں کوئی دقت نہ ہو یا جوابدہ نہ ہونا پڑے۔
‘انہوں نے بتایا کہ ’بھارتی میڈیا نے سیاچن کے معاملے پر مجھ سے انٹرویو کرنے کی درخواست کی اور انٹرویو کے انتظامات دبئی میں کر رکھے تھے۔ میں نے اس انٹرویو کے لیے لکھ کر جی ایچ کیو سے اجازت طلب کی تھی کہ میں یہ انٹرویو دینا چاہتا ہوں۔انہوں نے اجازت تو دے دی لیکن ساتھ ہی ریاست کا مؤقف بھی لکھ کر بھیجا کہ یہ پاکستان کا مؤقف ہے اور آپ نے پاکستان کے مؤقف کی ہی نمائندگی کرنی ہے۔اس سوال پر کہ یہ پابندی صرف آرمی چیفس پر ہے یا تمام سینیئر ریٹائرڈ جنرلز پر؟ جنرل (ر) امجد شعیب نے بتایا کہ ’یہ پابندی صرف آرمی چیف کے لیے نہیں بلکہ تمام رینکس پر ہے۔ چاہے وہ کپتان کا رینک ہے میجر، کرنل، بریگیڈیئر یا لیفٹیننٹ جنرل کا رینک ہو، سب پر یہ لاگو ہوتا ہے۔میں ریٹائرمنٹ کے 2سال تک ویسے ہی نہیں بولا تھا کیونکہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد 3سال تک فوجی فرٹیلائزر کا سربراہ تھا اور جب وہ ملازمت بھی ختم ہوئی تو پابندی کا وقت بھی پورا ہو چکا تھا۔
‘2سال کی مدت پوری ہونے سے پہلے اگر متنازع ہونے کی صورت میں اپنی پوزیشن کی صفائی دینا ضروری ہو اور بیان جاری کرنا پڑے تو ایسی صورت میں کیا راستہ ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ایسی صورت حال میں جنرل ہیڈکوارٹرز سے اس کی نہ صرف اجازت لینا ہوتی ہے بلکہ انٹرویو یا تقریر کا مواد بھی کلیئر کروانا ہو گا۔‘ان کے مطابق: ’سب سے بہتر راستہ یہ ہوتا ہے کہ کسی دوست کے ذریعے خبر شائع ہو جائے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں ان سے ملا تھا اور جو بات پھیلائی جا رہی ہے، وہ ویسے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’جیسے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات پر خبریں سامنے آنے پر ایک سینیئر صحافی نے جنرل باجوہ کی حمایت میں یوٹیوب پروگرام کیا اور کہا کہ جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے بات ہوئی ہے، جنہوں نے بتایا کہ جنرل باجوہ پر پورے کیریئر میں ایک دھیلے کی بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے اور ان کے تمام اثاثہ جات ڈکلیئرڈ ہیں۔
‘جب جنرل (ر) امجد شعیب سے سوال کیا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنے عرصے بعد کوئی سیاست میں باضابطہ شمولیت اختیار کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا: ’2 سال بعد ریٹائرڈ فوجی افسر کو اجازت ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لے سکتا ہے لیکن 2سال سے پہلے اگر سیاست میں شمولیت اختیار کرنا ضروری ہو تو جی ایچ کیو سے تحریری اجازت نامہ لے کر این او سی حاصل کرنا ہو گا۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’جیسے جنرل (ر) راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سعودی عرب نئی نوکری پر چلے گئے تو اس سے پہلے ان کو جی ایچ کیو سے این او سی کلیئرنس حاصل کرنا پڑی تھی، جس کے بعد وزارت دفاع نے اس کلیئرنس کی بنیاد پر این او سی جاری کیا تھا۔‘میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے کہا کہ قواعد کے مطابق 2 سال تک سیاسی تقاریر یا انٹرویوز کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ اجازت جی ایچ کیو سے اس صورت میں ہو سکتی ہے اگر ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد کوئی حکومتی عہدے پر موجود ہے، جیسے پرویز مشرف جب آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے لیکن اس وقت وہ صدر پاکستان بھی تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون نہیں ہے لیکن اصول یہی ہے۔
میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ اگر کوئی آرمی چیف رہا ہے یا ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر رہا ہو تو اسے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد انٹرویوز دینے میں محتاط ہونا چاہیے۔اب تک ریٹائر ہونے والے سینیئر فوجی افسران کے مستقبل کے بارے میں صورت حال واضح نہیں کہ وہ کیا ارادے رکھتے ہیں۔ آئین کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم ملازمت چھوڑنے کے 2سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں