وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے آبائی ضلع کو ڈیژن کا درجہ دیدیا

اسلام آباد (پی این آئی) مقامی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے پہلے اپنے آبائی ضلع کو ڈویژن کا درجہ دیا اور اس کے بعد 100؍ ارب روپے کی ترقیاتی سکیموں کیلئے فنڈز مختص کر دیے۔

 

 

 

بظاہر یہ دو اضلاع گجرات اور منڈی بہائو الدین تھے لیکن 70؍ فیصد فنڈز چار حلقوں کے دو خاندانوں کو ملے ہیں۔ گجرات کے ڈویژنل دفاتر میں ضروری ساز و سامان اور انفرا اسٹرکچر پر ہونے والے اخراجات مذکورہ بالا فنڈز سے علیحدہ ہیں۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ نے لکھا کہ معلوم ہوا ہے کہ رواں سال ماہِ جون میں پنجاب حکومت کے پاس بجٹ کی منظوری کے وقت اپنے اکائونٹس میں 440؍ ارب روپے کی سرپلس رقم موجود تھی۔ ایک ذریعے کے حوالے سے مزید لکھا کہ گجرات اور منڈی بہائو الدین کیلئے فنڈز اسی رقم سے ادا کیے گئے ہیں۔ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (2022-23ء) کیلئے مجموعی طور پر 700؍ ارب روپے رکھے گئے تھے جس میں سے ایک بڑا حصہ گجرات ڈویژن کو اس کے چار چھوٹے اضلاع کیلئے دیدیا گیا ہے، جن میں گجرات، منڈی بہائو الدین، وزیر آباد اور حافظ آباد شامل ہیں۔

 

 

لیکن اس کے باوجود فنڈز کا بڑا حصہ دو خاندانوں کیلئے رکھا گیا ہے۔ گجرات سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی اور بھائی چوہدری وجاہت کے بیٹے چوہدری حسین الٰہی ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق تمام ارکان اسمبلی کے مقابلے میں سب سے زیادہ فنڈز منڈی بہائو الدین سے رکن صوبائی اسمبلی ساجد بھٹی کو ملے ہیں۔ وہ محمد خان بھٹی کے بھیجتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ حلقے میں ترقیاتی کاموں کیلئے جاری کردہ ٹینڈر کی تفصیلات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ فنڈز کا حجم 15؍ ارب ڈالرز ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سڑکوں کی مرمت کا 50؍ فیصد کام وہی ہے جو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کرایا گیا ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، 90؍ فیصد ادائیگی کی جا چکی ہے جبکہ کام صرف 20؍ فیصد ہوا ہے۔ مونس الہٰی  نے کہا کہ انہیں اسکیموں کی تعداد کے بارے میں یقین نہیں ہے لیکن انہوں نے تصدیق کی کہ انہیں گجرات ڈویژن کے لیے منظور کیا گیا ۔

 

 

انہوں نے حلقوں کیلئے فنڈز مختص کرنے کہ توجیہہ یہ کہہ کر پیش کی کہ کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لاہور کے لیے ایکسپریس وے کو بلند کرنے کے لیے 80 ارب روپے کی ایک سکیم منظور کی گئی ہے تاہم جب ان سے مذکورہ حلقوں کے لیے منظور شدہ اسکیموں کی مالیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ اسکیمیں منظور ہونے کے وقت (بجٹ کے دوران) ان کے والد وزیراعلیٰ نہیں تھے۔ جب ان سے کہا گیا کہ اسکیموں کو سپلیمنٹری گرانٹس کے ذریعے منظور کیا گیا تھا اور یہ ان کے والد کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد کیا گیا تھا، تو انہوں نے تاریخیں دوبارہ چیک کرنے کو کہا۔ دی نیوز نے تصدیق کی کہ انہیں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے منظور کرلیا۔ زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں جلد بازی میں منظور کی گئی ہیں اور ان کیلئے کوئی مناسب فزیبلٹی اسٹڈی بھی نہیں کرائی گئی۔ عوام کے پیسے کا اس طرح بے دریغ استعمال، وہ بھی صرف چند حلقوں کیلئے اور بغیر کسی احتیاطی اقدامات کے، سوالات اٹھاتا ہے اور یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی بھی ہے۔پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے سے قبل، رواں سال جولائی میں 9؍ ارب روپے کی 164؍ اسکیمیں منڈی بہائو الدین اور گجرات کیلئے منظور ہوئی تھیں۔ اس کے بعد ان دو اضلاع کیلئے بجٹ پہلے بڑھ کر 54؍ ارب اور اس کے بعد بڑھا کر 100؍ ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔

 

 

 

اب یہاں صرف ایک حلقے میں 113؍ اسکیمیں ہیں جن کی مالیت 45؍ ارب روپے ہے جہاں پرویز الٰہی صوبائی نشست پر (پی پی 80) اور ان کے بیٹے مونس قومی اسمبلی کی نشست پر (این اے 69) منتخب ہوئے ہیں۔ حسین الٰہی کے حلقے (این 68) میں 103؍ اسکیمیں شروع کرائی گئی ہیں جن کی مالیت 10؍ ارب روپے ہے۔ اس کے بعد منڈی بہائو الدین کیلئے 116؍ اسکیمیں منظور کرائی گئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اسکیمیں پی پی 67؍ کے حلقے کی ہیں جو بھٹی کا حلقہ ہے اور ان کی مالیت 20؍ ارب روپے ہے۔ یہ تمام اسکیمیں ضمنی گرانٹس کے ذریعے منظور کی گئی ہیں وہ بھی اس وقت جب ملک میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو زیادہ فنڈز کی ضرورت ہے۔ تاہم، جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب الٹا ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور بھکر جیسے متاثرہ علاقوں کے فنڈز میں کٹوتی کی گئی ہے۔ بہاولنگر اور خوشاب کے بجٹ کو بھی کم کیا گیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں