لاہور(پی این آئی)تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کو پنجاب میں چیلنج دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور اس تجویزپر غور کرنے کا کہا ہے جس کے مطابق دونوں جماعتوں کو پہلے پنجاب اسمبلی میں قائدایوان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے دی جائے جس کے بعد اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا جائے.
مسلم لیگ نون کے ایک سنیئرراہنما نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت اعصاب کی جنگ جاری ہے تاہم ان کے نزدیک نون لیگ کا ایسے حالات میں تحریک عدم اعتماد لانا ایک فاش سیاسی غلطی ہوگی جس کا ازالہ شاید آئندہ کئی دہائیوں تک نہ ہوسکے. ان کا کہنا تھا کہ فریقین پریشربڑھانے کے لیے مختلف دواؤ بیچ کھیل رہے ہیں تاہم اس کا فائدہ پی ٹی آئی جبکہ نقصان حکمران اتحاد خصوصا مسلم لیگ نون کو ہورہا ہے پنجاب ان کے ہاتھ مکمل نکل رہا ہے اور شاید طویل عرصے تک پنجاب میں نون لیگ کا ”کم بیک“نہ ہوسکے. ادھر تحریک انصاف بھی اپنے کارڈ سنبھالے بیٹھی ہے گزشتہ روزایک انٹرویو میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ انہیں حکومت چلانے کا تجربہ نہیں تھا اس لیے بہت ساری غلطیاں ہوئیں مگر اس بار ٹکٹوں کی تقسیم سمیت وہ تمام معاملات کی نگرانی خود کریں گے . بتایا جارہا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی سفارشات مکمل کرکے پارٹی چیئرمین کے سپردکردی ہیں اور آج وزیراعلی پنجاب سے ملاقات کے دوران کمیٹی کی سفارشات بھی زیربحث آئیں.
معتبرذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری مونس الہی اس وقت بہت زیادہ متحریک ہیں اورسابق وزیراعظم عمران خان سے چوہدری پرویزالہی کی ملاقات میں بھی وہ موجود تھے تحریک انصاف کے اندر بھی یہ خیال پایا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی طرح کہیں صوبائی اسمبلیاں بھی ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائیں اورصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر قومی اسمبلی جیسے عدالتی فیصلوں سے پنجاب نون لیگ کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے. ادھر سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون ہر حالت میں پنجاب کی صوبائی حکومت واپس پانا چاہتا ہے مگر موجودہ اسمبلی میں نمبرگیم کو دیکھیں تو اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی صورت میں وہ کامیاب ہوگی کیونکہ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھاجارہا ہے لہذا پی ٹی آئی کا کوئی بھی رکن پنجاب اسمبلی وفاداریاں تبدیل کرنے یا فاروڈ بلاک بنانے پرتیار نہیں ہوگا. ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی کے ارکان نے رائے دی ہے کہ سیاسی کارڈز کھیلتے ہوئے ٹائمنگ کو مد نظر رکھا جائے، اسمبلیوں کی تحلیل تب کی جائے جب وفاق اور دیگر صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ سکے کیونکہ اس وقت حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں مالیت کے ٹینڈرز ہوچکے ہیں، متعدد حکومتی منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں لہذا پارٹی کو ترقیاتی کاموں کے کریڈٹ کسی اور کو دینے مسائل کا سامنا ہوگا
ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹی کی سفارشات پر پارلیمانی بورڈز کے اجلاسوں کے بعد تاریخ کا حتمی فیصلہ عمران خان کریں گے. میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62/63 پرصدارتی ریفرنس کی تشریخ کے بعد فلورکراسنگ ممکن نہیں رہی اور اگر تحریک انصاف میں کوئی نیا فاروڈبلاک بن بھی جاتا ہے تو اس کا مسلم لیگ نون کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ایسی صورتحال میں نون لیگ کے امیدوار کے امیدوار کو ووٹ دینے والے اراکین صوبائی اسمبلی ماضی کی طرح نااہل ہوجائیں گے نمبرگیم میں نون لیگ اور ان کے اتحادیوں کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے . انہوں نے کہا کہ نمبر گیم میں 341کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 186ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ اس وقت نون لیگ کے پاس گزشتہ روزایک رکن پنجاب اسمبلی کی وفات کے بعد 166ووٹ بچے ہیں اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے7‘راہ حق پارٹی کا ایک اور5 آزاداراکین کی حمایت حاصل ہے مجموعی طور پر یہ تعداد179بنتی ہے‘انہوں نے کہا کہ نون لیگ کو صرف ایک ہی صورت میں پنجاب کا تحت واپس مل سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ(ق)کو ساتھ ملاکران کے 10ووٹ حاصل کرلے جو بظاہرممکن نظرنہیں آرہا. انہوں نے کہا کہ نمبر گیم میں 180ووٹوں کے ساتھ تحریک انصاف پنجاب اسمبلی کی نمایاں اکثریتی جماعت ہے اگر نون لیگ گورنرپنجاب کے ذریعے وزیراعلی چوہدری پرویزالہی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہتی ہے تو ان کے ووٹوں میں اضافہ ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت جولائی میں ہونے والے وزیراعلی کے انتخابات میں تحریک انصاف کے نااہل قرارپانے والے25اراکین کے ووٹ شامل نہیں تھے.
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 130کی سب کلاز4کے تحت پہلے راؤنڈ میں اگر کوئی امیدوار186ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو دوسرے راؤنڈ کی ووٹنگ میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا وزیراعلی منتخب ہوجاتا ہے مگرزمینی حقائق اس وقت مختلف ہیں ایک طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق)کے پاس 190ووٹوں کی واضح اکثریت ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو179اراکین کی حمایت حاصل ہے. انہوں نے کہا کہ وزیراعظم یا وزراءاعلی کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل112بڑاواضح ہے کہ وزیراعلی کی ایڈوائس کے48گھنٹوں کے اندر گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا پابند ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں