اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا تھا کسی کا دباؤ نہیں تھا، عوام کی بہت بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ایکسٹینشن دینے سے تاریخ میں نقصان ہوا، دوسری ایکسٹینشن سے چیف کی بھی اپنی رینک اینڈ فائل کے اندر وہ مقبولیت نہیں ہوتی۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کی وفاق اور صوبے میں حکومت ہے لیکن بلاول بھٹو اپنی حکومت کی کارکردگی کی بجائے اپنے نانا کی 1974کی کارکردگی بتا رہے تھے۔ بلاول بھٹو کے مارچ کو روکنے کیلئے کوئی آنسو گیس نہیں چلی، سڑکیں بند نہیں کیں،مقدمات نہیں بنائے گئے، کانپیں ٹانگنے والی تقریر کی اور چلے گئے، تحریک انصاف نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے پی ٹی آئی اپنے فیصلے ایک ٹائمنگ سے کرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ استعفوں اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے میں پارٹی رہنماء موجود تھے لیکن اس میں یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ پارلیمانی پارٹیوں کی میٹنگز بلائی جائیں گی، تحریک عدم اعتماد آنے سے کوئی مشکل نہیں ہوگی، سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں ان کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی۔ آئین کہتا ہے اگر قبل ازوقت اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو 90دن میں جبکہ آئینی مدت پوری ہونے پر 60دن میں الیکشن کرانا ہوتے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ فیصلہ سازی کے وقت زیربحث بات رہی کہ ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے کہ ملک مشکل میں آجائے گا۔میں پہلے بھی بہت ساری باتیں کرچکا ہوں، میں جنرل باجوہ سے بھی یہ باتیں کرچکا ہوں کہ ہمارے ارکان کو فونز آئے ہیں لیکن جنرل باجوہ نے کہا یہ جھوٹ بولتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہونے کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے ہی بتایا جارہا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اگر عمومی طور دیکھا جائے تو پاکستان میں لوگ جو سیاست اور فوج کو دیکھتے ہیں ، ان میں اگر اتفاق رائے نہیں ہے تو بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو سمجھتے ہیں کہ ایکٹینشن دینے سے تاریخ میں نقصان ہوا ہے، اسی طرح جب دوسری مدت کیلئے ایکسٹینشن ملتی ہے تو وہ چیف اپنی رینک اینڈ فائل کے اندر بھی مقبول نہیں ہوتا، ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ وزیراعظم کا ہی تھا کسی کا دباؤ نہیں تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں