لاہور ( آئی این پی) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جمہوری جدوجہد میں اتحادیوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بحالی جمہوریت ، اداروں کی مضبوطی ،قوم کو چیلنجز سے نکالنے کے لئے مشاورتی عمل اور اتحاد جاری رہے گا ، تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی مختلف گروپوں کی شکل اختیار کر چکی ہے اور سب کا موقف ایک ہی ہے کہ پنجاب اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنی چاہیے ،بہت سارے لوگ رابطے میں بھی ہیں ،کئی چیزوں کی آئین ،قانون اور دین سارے اجازت دیتے ہیں لیکن اس کو ناپسندیدہ عمل کہا جاتا ہے ،
پارلیمان کو اپنی مدت پوری کرنے نہ دی گئی تو ہماری ساری قربانیاں رائیگاں جائیں گی ،حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکان اسمبلی سے بھی روابط کو تیز کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور مزید مشاورت کے بعد تمام اتحادی جماعتیں ملکر اگلے لائحہ عمل ایک دو روز میں اعلان کریں گی ۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطاء اللہ تارڑ اور پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے (ن) لیگ کے ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے حمزہ شہباز کے ساتھ پنجاب کی موجودہ سیاسی صوتحال اور آئندہ کے لاتحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ آصف زرداری ، بلاول بھٹو کے شکر گزر ہیں کہ انکی ہدایت پر حسن مرتضیٰ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے حمزہ شہباز سے ملاقات کر کے پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور جو مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا تھا ہم نے اسے آج آگے بڑھایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کا ہمیشہ سے جو سیاسی کردار رہا ،اس کو آج کی میٹنگ میں بھی سراہا گیا کہ جس طریقے سے حکومت چل رہی ہے اور پنجاب میں بھی ہمارا آپس میں تعاون کا سلسلہ جاری ہے جو قابل ستائش ہے ۔
آج مشاورتی سلسلے میں تمام آپشن زیر غور لائے گئے جن میں پنجاب میں تحریک عدم اعتماد ،گورنر کا یہ اختیار کہ وہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہیں اور دیگر قانونی آپشنز پر تفصیلی گفتگو ہوئی ، اس بات پر بھی گفتگو ہوئی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ممبران بالخصوص جن کا تعلق حکومت سے ہے ان میں اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور اس وقت تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی مختلف گروپوں کی شکل اختیار کر چکی ہے اور سب کا موقف ایک ہی ہے کہ پنجاب اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنی چاہیے ۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی اور ہم نے 2008ء اور 2013ء میں وفاق میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ، آئین اور قانون کی منشاء کے مطابق اسمبلیوں کو مکمل کیا اور آئندہ بھی چاہتے ہیں کہ عوامی مینڈیٹ پر کوئی ڈاکہ نہ ڈالا جائے ،عوامی مینڈیٹ کا احترام ہو اور آئین کی منشاء کے مطابق اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں ۔ اب جو آپشن زیر غورآئے اس پر جلد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ ہمارے 18ممبرز کو معطل کیا گیا ہے ویسے تو قانون کے مطابق کسی بھی ممبر کو اعتماد کے ووٹ میں کسی کو نہیں روکا جا سکتا اور عدالتوں کی رولنگ بھی موجود ہے ۔ مگر پھر بھی ہمارا یہ شکوہ ضرور ہے کہ ہمارے کیسز کو وقت پر نہیں سناجاتا ، ہائیکورٹ میں سپیکر والا کیس بھ پچھلے کئی ماہ سے التواء کا شکار ہے جس کو فکس نہیں کیا جا رہا ۔ پی پی اور (ن) نے طے کیا ہے کہ ہر ہربے کو استعمال کریں گے مگر پنجاب اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکان اسمبلی سے بھی روابط کو تیز کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور مزید مشاورت کے بعد تمام اتحادی جماعتیں ملکر اگلے لائحہ عمل ایک دو روز میں اعلان کریں گی ۔ ایک سوال کے جواب میں عطاء تارڑ نے کہا کہ تیاری ہر طرح کی رکھنی چاہیے اور امید اچھی رکھنی چاہیے ۔ قانونی آپشن کے مطابق تیاری بیک اینڈ پر موجود ہے ، جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس کا اعلان کیا جائے گا مگر کوئی بھی ایسی بات قبل ازوقت نہیں کرنا چاہتا جو نقصان دہ ہو۔مگر ہماری ہر طرح کی تیاری مکمل ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ملبہ ہمارا گرایا ہوا نہیں تھا جو ہم نے آکر اٹھایا ہے ، ہم مہنگائی کو 4فیصد پر چھوڑ کے گئے تھے ، شرح نمو کو 5.8فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے ، عمران نیازی نے چور چور ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگا کر عثمان بزار کو یہاں وزیر اعلیٰ لگا کر ، پوسٹر بوائے اسد عمر کو فنانس منسٹر لگا کر عوام پر مہنگائی کے پہاڑ گرائے ،انہوں نے ایک موٹر وے ، ایک بجلی کا منصوبہ لگایا ہو تو بتا دیں ۔ آئی ایم ایف کے پاس ہم نہیں بلکہ وہ گئے تھے ۔فیٹف کی گرے لسٹ سے پاکستان ہمارے دور میں نکلا ، بات یہ ہے کہ ملبہ ان کا گراا ہوا ہے مگر اب بہتری آرہی ہے ۔ مگر وہ تو ملک کو تباہ کرنے اور معیشت کو برباد کرنے کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے ۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا مشکور ہوں کہ مشاورتی عمل کو وسیع کرتے ہوئے اپنی اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیا ۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اس بات کا خیر مقدم کیا جو آصف علی کا ویژن ہمیشہ سے رہا کہ جمہوریت ،اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے اور آج ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہونے جا رہے ہے کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ آپ حکومت کرو مگر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم حکومت چھوڑ کر اسمبلیاں توڑ رہے ہیں ۔ آج ایک واضح تفریق سامنے آئی ہے کہ حکومت اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی کون چاہتا ہے اور اس کو کمزور کون کرنا چاہتا ہے ۔ یہ واضح ہو گیا کہ جو چور دروازے سے جاتے ہیں وہ ہمیشہ اسی راستے کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارتی پارٹی اس جمہوری جدوجہد میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بالکل شانہ بشانہ ہو گی ہم نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ یہ جو ذمہ داریاں لی وہ ملک اور قوم کے لئے لی تھیں جو ملک کو بچانے کے لئے کررہے ہیں۔جو چار سال کی انکی کارکردگی تھی نان ایشو کے سہارے ،کبھی سائفر لہرا کر ،کبھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر قوم لگایا گیا ،کبھی اسمبلیاں توڑنے کی بات کر کے ، ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ ہمارے مختلف نظریات ہونے کے باوجود ہم نے ملک میں جمہوریت اور جمہور کو مضبوط کرنے کے لئے کردار ادا کیے ، اس کا نقصان بھی اٹھایا اسکا خمیازہ بھی بھگتا اور آج پھر ہم اس بات کا تجدید عہد کرتے ہیں کہ ملک میں بحالی جمہوریت ، اداروں کی مضبوطی ،قوم کو چیلنجز سے نکالنے کے لئے مشاورتی عمل اور اتحاد جاری رہے ہیں ، انشاء اللہ چند دنوں میں اسکے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں حسن مرتضیٰ نے کہا کہ کئی چیزیں ہیں جن کی آئین ،قانون اور دین سارے اجازت دیتے ہیں لیکن اس کو ناپسندیدہ عمل کہا جاتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن پارلیمان امن مدت پوری کرے ، ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے ،کئی حکومتوں کے گلے کاٹے گئے اور انہیں وقت سے پہلے فارغ کیا گیا اگر یہی روایت جاری رکھی تو ہماری ساری قربانیاں رائیگاں جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ چیزیں آئین میں موجود ہے مگر ضروری نہیں اس پر عمل کیا جائے ۔ برطانیہ کی مثال دیتا ہوں کہ وہاں ملکہ اسمبلیاں توڑ سکتی ہیں مگر وہ نہیں توڑتیں ۔ اگر کوئی ایسے حالات ہوں کہ اس آپشن کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو ضرور کریں ۔ لیکن آج ایسے کون سے حالات ہیں کہ حکومت اسمبلیاں تحلیل کرنے جا رہی ہے ،حکومت کی جو ذمے داری ہے وہ اسے پوری کرے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں