لاہور(پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہےکہ ہماری حکومت میں اسٹیبلشمنٹ نے ووٹ پورے کرانے کیلئے مداخلت کی تھی ، فوج نے ہمیں گورننس کی بہتری کیلئے بڑاسپورٹ کیا، سنا ہے حکومت بنانے میں بھی بڑا کردار رہا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسمبلی میں ووٹ پورے کرانے کیلئے مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بنانے کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا سنا ہے، لیکن فوج نے ہمیں گورننس میں بہت زیادہ سپورٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ میں دیکھا کہ ہمارے وقت میں عدم اعتماد کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ووٹ پورے کرانے کیلئے مداخلت تھی،اسمبلی میں ووٹ پورے کرانے میں فوج کی کبھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، جو بات ہے میں کھل کہہ رہا ہوں۔تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران خان نے جنرل باجوہ سے ملاقات کا کہا تھا، عدم اعتماد سے پہلے میری ان سے ون آن ون ملاقات ہوئی تھی۔ بعد والی ملاقات میں پرویزخٹک ودیگر لوگ بھی موجود تھے۔ باجوہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، اب قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ فروری 2022 میں سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔فروری میں ہمیں کہا گیا تھا کہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ 2021 میں کیا گیا تھا، قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا آپ کا فیصلہ درست ہے لیکن حالات کو بھی دیکھیں۔قمر جاوید باجوہ کو کہا تھا کہ نئے انتخابات کی طرف نہ گئے تو ملک کا نقصان ہوگا۔
آج بدقسمتی سے ہم نے ملک میں معاشی تباہی اور انتشار بھی دیکھ لیا۔ پہلے پی ڈی ایم والے فوج پر تنقید کرتے تھے اس وقت خاموشی تھی۔آج پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے تو انتقام لیا جارہا ہے۔ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو کالز کس کو کی جارہی تھیں۔ ق لیگ کو وزارت عظمیٰ کی آفر میں اداروں کی کوئی مداخلت نہیں تھی، واضح نظر آرہا تھا کہ سیاسی پوزیشن لے لی گئی۔ ایسے ارکان بھی ہیں جنہیں فون کالز کی گئیں لیکن وہ ساتھ کھڑے رہے۔ اصل مسئلہ تحریک عدم اعتماد نہیں اس کے بعد کیا ہوا وہ اہم تھا۔تاثر دیا گیا عمران خان ناکام ہوگئے اور شہبازشریف بہتر ہیں۔ تاثر دیا گیا شہبازشریف بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ سمجھا جارہا تھا کہ عمران خان جائیں گے تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ لیکن ان کا حساب کتاب غلط ہوا اور قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عوام نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے تھے لیکن غلطی کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ غلطی سامنے آگئی تو ناکامی کو چھپانے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا۔میڈیا صحافیوں اور سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو ایکشن لیے گئے آج بھی اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کو سب سے پہلے گزشتہ8 ماہ میں جو ہوا اس کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے وزیرخزانہ بنایا تھا انہوں نے کہا وزارت چھوڑ دو تو چھوڑ دی تھی۔ عمران خان میرے لیڈر تھے انہوں نے جو ہدایات دیں ان پر عمل کیا، ادارے کی جانب سے مجھے وزارت سے ہٹانے کی خبر کا مجھے نہیں معلوم۔انہوں نے کہا کہ باجوہ نے نہیں کہا تھا ان کی توسیع کی درخواست فوج کی طرف سے آئی تھی۔ آرمی چیف کی توسیع کے موقع پر کابینہ کا حصہ نہیں تھا لیکن اجلاس میں شریک تھا۔ آج جو معاشی بحران ہے1970کے بعد ایسا بحران کسی نے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی طاقت بندوقیں نہیں بلکہ طاقت عوام ہے، پچھلے 8ماہ میں اس رشتے میں دڑار ڈالنے کی کوشش کی گئی۔مشرقی پاکستان کے وقت فوج نے بڑی بہادری سے جنگ لڑی تھی، یہ جنرل باجوہ بھی کہہ چکے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے پاکستان کو کھوکھلا کردیا گیا تھا۔اس وقت کی صورتحال بھی یہی ہے کہ فوج الگ کھڑی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی یہ نہیں کہتی کہ فوج مداخلت کرکے الیکشن مسلط کردے، ہم چاہتے ہیں جس غلطی کا جنرل باجوہ اعتراف کرچکے ہیں ، اس مداخلت کو الیکشن کے ذریعے درست کیا جائے، تاکہ پاکستان ایک تازہ مینڈیٹ کے ساتھ آگے بڑھے، کیونکہ آج جہاں پر ہیں یہ کسی جمہوری عمل کے ذریعے نہیں ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں