وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر راج کے راستے میں آئینی و قانونی دیوار کھڑی کردی

لاہور(پی این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے گورنرراج کے راستے میں آئینی قانونی دیوار کھڑی کردی ، انہوں نے کہا کہ اسمبلی ان سیشن ہو تو عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی، اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو گورنر راج بھی نہیں لگ سکتا۔ انہوں نے آج یہاں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی ان سیشن ہو تو عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی۔

 

 

 

اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو گورنر راج بھی نہیں لگ سکتا، تمام کام آئین قانون کے دائرے میں رہ کر کیے ہیں اور کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہمیں اکثریت حاصل ہے، پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان کی تعداد 191ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اقلیت میں ہے اور اقلیت میں ہی رہے گی، اپوزیشن والے صرف نعرے لگا سکتے ہیں تحریک عدم اعتماد لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے معیشت کا برا حال کردیا ہے، عوام پی ڈی ایم حکومت کوجھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں، شہبازشریف کو صرف مانگنا آتا ہے اور وہ صرف مانگ سکتا ہے، بھکاری بھی ایک در پر باربار بھیک مانگنے آئے تو گھر والے دروازہ بند کردیتے ہیں۔شہبازشریف نے سیلاب متاثرین کو بھی ایک پائی نہیں دی، ہم نے اپنے وسائل سے سیلاب متاثرین کی آبادکاری اور بحالی کا کام کیا۔ مزید برآں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی زیرصدارت سینئررہنماؤں کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ سے پارٹی قیادت کی شرکت کی۔ اجلاس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چودھری اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، شفقت محمود، تیمورسلیم جھگڑا، علی امین گنڈا پور، ڈاکٹر یاسمین راشد ، عاطف خان اور عمر ایوب نے بھی شرکت کی۔

 

 

اجلاس میں بابر اعوان اور علی ظفر نے اجلاس کے شرکاء کو آئینی اور قانونی معاملات پر بریفنگ دی۔ اسمبلی سے مستعفی ہونے کے لئے آئینی مرحلے سے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک کے مزید آپشنز کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک میں شدت لانے کیلئے مزید آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ کہ سینیٹر سواتی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا،اعظم سواتی کئی ہفتوں سے عدالت سے حصولِ انصاف کےمنتظر رہے مگر انکی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔جب اعظم سواتی نے غصے اور مایوسی کا اظہار کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ عمران خان نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ اعظم سواتی کیخلاف پورے میں 15 ایف آئی آر درج کر دی گئیں۔ آرٹیکل 14 ”شرف انسانی کو قابل حرمت“ قرار دیتا ہے۔ کیا آرٹیکل 14 کی شق صرف اعلٰی اور طاقتور ریاستی عہدیداروں کیلئے منتخب طور پر لاگو کی جائے گی؟ کیا شق ریاست کے طاقتوروں پر لاگو ہوتی ہے،باقی سب کیلئے ان کے بنیادی انسانی وقار کا کوئی تحفظ نہیں؟ دوسری جانب تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے کہ ایک الزام کیلئے ایک سے زیادہ ایف آئی آر نہیں ہو سکتی،کس قانون کے تحت اعظم سواتی کیخلاف ایک درجن سے زائد ایف آئی آر کٹ چکی ہیں؟ تاریخ سب کچھ بتا دیتی ہے۔نہ تاریخ کو دھمکایا جا سکتا ہے،نہ تاریخ کی نشریات بند کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی تاریخ کو جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔اب تاریخ سب بتائے گی،کس نے کام کیا،کیوں کیا اور کس کیلئے کیا۔

 

 

 

سب سامنے آئے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا، ایف آئی اے حکام نے اعظم سواتی کو ایف ایٹ کچہری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کے روبرو پیش کیا، جہاں ڈیوٹی مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے اعظم سواتی کیس کی سماعت کی اور فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 2 روز جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے حکام کے حوالے کیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کہاں ہیں؟ بتائیں اعظم سواتی کوکیوں گرفتار کیا ہے؟ اس کے جواب میں تفتیشی افسر نے کہا کہ کچھ متنازع ٹویٹس ہیں جس کے باعث اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں