اسلام آبادـ(آئی این پی)پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے اہل جنرلز کے نام وزیراعظم کے پاس آتے ہیں، کسی اہل افسر کا نام سمری میں شامل نہ ہوا تو معاملہ عدالت میں چیلنج ہوتا ہے، نواز شریف کے ابھی دو میڈیکل پروسیجر ہونے ہیں جس کے بعد وہ وطن واپس آسکتے ہیں۔
ایک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیراعظم خود کسی بھی افسر کا تقرر کرسکتے ہیں یا پھر نئے ناموں کی سمری بھی منگوا سکتے ہیں۔شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ بے یقینی کی عادت سی ہوگئی ہے، نئے آرمی چیف کا تقرر معمول کا عمل ہے، وزیراعظم کے پاس سمری آتی ہے، وہ تقرری کر دیتے ہیں، تقرر آخری دو سے تین دن میں ہی ہوتا ہے، یہ روایت ہے کہ آرمی چیف آخری دنوں تک کام کرتے ہیں، آرمی چیف کو الوداعی دورے کرنے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق سمری نے آنا ہے، سمری میں تمام اہل جنرلز کے نام ہوتے ہیں۔ اگر آپ سمری میں اہل نام شامل نہیں کریں گے تو مسئلہ ہوسکتا ہے، اہل نام شامل ہونے یا نہیں ہونے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر آپ اہل آدمی کا نام شامل نہیں کریں گے تو وہ بھی غیر قانونی ہے، اگر آپ نااہل آدمی کو شامل کریں گے وہ بھی غیرقانونی ہے، اور یہ معاملہ عدالت میں چیلنج بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو سیکریٹری ڈیفینس ہیں یا منسٹر آف ڈیفنس ہیں، ڈیفنس جو ڈیویژن ہے ان کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس میں کوئی ایسی کوئی کیفیت پیدا نہ ہو کہ معاملہ عدالت میں چیلنج ہوجائے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے پانچ چھ لوگوں میں سے آرمی چیف کا چنا ہوتا ہے، اگر تین ستاروں کا کوئی جنرل اہل ہے تو اس کا نام شامل ہوگا۔وزیراعظم کسی بھی نام کو فائنل کرسکتے ہیں، سمری کا نہ آنا بہت پیچیدہ عمل ہوگا، سمری کا نہ آنا غیرقانونی و غیرآئینی ہوگا، سمری نہ آئے تو بھی وزیراعظم تقرر کرسکتے ہیں۔ اگر سمری میں نام ناکافی ہوئے تو نئے نام مانگے جاسکتے ہیں۔فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا شاہد خاقان عباسی پورے حکمران اتحاد بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں تمام تھری اسٹار جنرلز پاکستانی فوج کی قیادت کے لیے یکساں طور پر اہل ہیں۔نواز شریف کی واپسی کے سوال پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میاں نواز شریف کے ابھی دو میڈیکل پروسیجر ہونے ہیں جس کے بعد واپس آسکتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں