عمران خان پر حملے کی تحقیقات میں پیشرفت

لاہور( پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں پیشرفت ،پولیس نے وزیرآباد سے مزید ایک شخص کو حراست میں لے لیا جو حملہ آور نوید کا قریبی عزیز ہے۔ذرائع کے مطابق حملہ آور نوید نے حملے سے قبل موٹر سائیکل اس شخص کی دکان پر کھڑی کی تھی۔

نوید موٹرسائیکل پر گرفتار شخص کی دکان تک پہنچا تھا جہاں موٹرسائیکل کھڑی کرکے پیدل لانگ مارچ ریلی تک پہنچا تھا۔ریلی میں پہنچنے کے بعد عمران خان کا کنٹینر دیکھتے ہی نوید نے حملہ کردیا۔ گرفتار شخص سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔ عمران خان قاتلانہ حملہ کیس میں اب تک زیر حراست افراد کی تعداد چار ہو گئی ہے۔دوسری جانب لانگ مارچ کے دوران چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر حملہ آور ہونے والے شخص کو زیر کر کے کا بہادری کا مظاہرہ کرنے والے

ابتسام حسن نے سابق وزیر اعظم پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے جلسوں کے لیے بلٹ پروف کنٹینر استعمال کریں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیر آباد کے رہائشی 30 سالہ ابتسام حسن نے کہا کہ اندھی گولی کسی کو بھی نشانہ بنا سکتی تھی لیکن ہمارے پاس صرف ایک عمران خان ہیں جسے قوم کھونے کی متحمل نہیں ہے۔اسٹین لیس برتنوں کا آن لائن کاروبار کرنے والے ابتسام حسن اس وقت پنجاب حکومت کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔سرکاری حکام ان کی حفاظت کے لیے انہیں لاہور لے گئے جہاں وہ تین نومبر جمعرات کی شب سے وزیر اعلی پنجاب کے گھر میں مقیم ہیں۔

ایک انٹرویومیں ابتسام حسن نے کہا کہ وہ جمعرات کی شب سے وزیراعلیٰ ہائوس میں مقیم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے 2 درجن اراکن اسمبلی کی موجودگی میں پنجاب پولیس کے دستے نے انہیں سلامی دی۔انہوں نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا کوئی سرگرم کارکن یا عہدیدار نہیں بلکہ پاکستان کے لیے عمران خان کے انقلابی نظریے کی وجہ سے ان کا حامی ہوں۔

ابتسام حسن نے بتایا کہ میں نے 2013 کے عام انتخابات سے پی ٹی آئی کو ووٹ دینا شروع کیا، وزیر آباد میں پنجاب اسمبلی کی نشست پر میں نے جماعت اسلامی کے امیدوار اور قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔انہوں نے کہا کہ بھارتی نیوز چینلز سے کالز موصول ہونے کے باوجود میں نے انہیں انٹرویو دینے سے انکار کردیا کیونکہ پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ صورتحال کی حساسیت کی وجہ سے بھارت یا برازیل سے موصول ہونے والی کسی کال کا جواب نہ دوں۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آور مجھ سے صرف 10 میٹر کے فاصلے پر تھا اور جیسے ہی میں نے اس شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پستول تھا تو میں اس کی طرف جھپٹا اور پستول چھیننے کی کوشش کی لیکن اس دوران اس نے کئی گولیاں چلائیں، معظم گوندل میرے پیچھے کھڑے تھے، انہوں نے بھی پستول چھیننے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے انہیں گولی لگ گئی۔

ابتسام حسن نے کہا کہ حملہ آور نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن بعد میں جائے وقوع کے قریب کار پارکنگ یارڈ سے پکڑا گیا، مجھے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے پر کوئی افسوس نہیں ہے کیونکہ ملک کے لیے عمران خان کی جان زیادہ اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کے کئی رہنماں سے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسوں کیلئے بلٹ پروف گاڑی کا بندوبست کریں۔

میں کوئی فعال سیاسی کارکن نہیں ہوں اور نہ ہی شہرت چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ مجھے جو چیز پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک سابق وزیر اعظم کو حکومت سے نکال باہر کردیا جائے اور انہیں انصاف نہ مل سکے تو ایک عام آدمی کو کیسے انصاف ملے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے مطالبے کے حق میں ہیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی اصلاحات ممکن نہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں