لاہور (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کنٹینر پرایک حملہ آور نے سائیڈ اور ایک نے سامنے سے فائرنگ کی، ٹانگ پر گولی لگنے سے میں گرا تو میرے اوپر سے گولیاں گزری تھیں، سامنے والاحملہ آورسمجھا کہ میں مرگیا ہوں، جو ایک جنونی شخص پکڑا گیا اس کے پیچھے پورا پلان تھا۔
انہوں نے فائرنگ واقعے سے متعلق قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر جو حملہ کیا گیا ہے اس کی تفصیل بعد میں بتاؤں گا، مجھے پتا چل گیا تھا کہ وزیرآباد یا گجرات میں نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مارچ 6، 7کو ڈونلڈ لو پاکستانی سفیر کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر عمران خان کو نہ ہٹایا گیا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اگلے دن تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی،اور دیکھتے دیکھتے ارکان کی منڈی لگ گئی، حکومت تحریک عدم اعتماد ہارتی نہیں ہے، کیونکہ وسائل ہوتے ہیں، ہم پیسا بھی دے سکتے تھے، لیکن انہوں نے ناجائز پیسا استعمال کیا اور لوگ خرید لیے ، ہم نے فیصلہ کیا ہم عوام کا پیسا ضائع نہیں کریں گے۔
سب نے سمجھا کہ حکومت گرگئی تو مٹھائیاں بانٹی جائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، میں بشریٰ بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، میں نے سارے مناظر دیکھے، کہ یہ ہوا کیا ہے؟ 90ء کی دہائی میں حکومتیں نکالی گئیں تو مٹھائیاں بانٹی گئیں، پھر جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا تو پھر لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں، لیکن جنرل مشرف نے این آراو دیا اور یہ واپس آگئے ، پھرآکے کرپشن کی، پاکستان کا چار گناقرضہ بڑھ گیا۔ مجھے لوگوں نے ووٹ دیا کہ وہ ان سے تنگ تھے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ ان کو واپس لے آئی، بیرونی سازش ہوتی ہے اور یہ واپس آجاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ عادت پڑگئی تھی۔ عوام نے سوچا یہ یہی کرتے آئے ہیں اس لئیے عوام باہر نہیں نکلی۔ میں 26سال قبل پارٹی بنائی، لیکن میں عوام میں گیا اور عوام نے مجھے بڑی پذیرائی دی۔ گرمی انتہاء کی تھی لیکن پھر بھی عوام باہر نکلی، ہم نے 25مئی کو لانگ مارچ کال دے دی،لیکن انہوں نے بیہمانہ تشدد کیا، گھروں میں جاکر لوگوں کو اٹھایا۔ ہم نے احتجاج کیا تو بھیڑ بکریوں کی ڈنڈے مارے۔
یہ پاکستانی قوم کو سمجھ نہیں سکے، بند کمروں میں فیصلے کرتے ہیں۔17جولائی کے ضمنی انتخابات میں ساری مشینری استعمال ہوئی، الیکشن کمیشن نے سپورٹ کی، ای وی ایم مشین اس لیے ختم کی کہ دھاندلی ختم ہوجاتی، دونوں جماعتوں اور ہینڈلرز نے ای وی ایم کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود تحریک انصاف جیت جاتی ہے، پھر بھی نہیں سمجھا کہ قوم کس طرف کھڑی ہے۔ پھر دھمکیاں دی گئیں۔ مزید سختیاں شروع کردی جاتی ہیں۔ میڈیاپرسختیاں، ایم پی ایز کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ عمران خان کو چھوڑ دیں، اگر نہیں مانوگے تو ہمارے پاس آپ لوگوں کی گندی ویڈیوز ہیں، کرپشن کیسز بنائیں گے، الیکشن کمیشن کو استعمال کیا جارہا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو نااہل کرو، پھر فارن فنڈنگ کیس بنایا گیا، جب پتا چلا پارٹی ختم نہیں ہوسکتی تو وہ چھوڑ کر توشہ خان کیس کی طرف چلے گئے، توشہ خان کیس میں نااہل کردیا گیا۔ کیوں جی؟ کیونکہ نوازشریف کا حکم آیا ہوا کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ دیں۔ اسحاق ڈار نے 164کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے دیا ہوا کہ میں شریف فیملی کا پیسا منی لانڈرنگ کرتا رہا ہوں۔
الیکشن کمیشن نے ہمارے خلاف 8دفعہ فیصلہ دیا، اور ہم عدالت میں گئے، اب پھر ہم عدالت میں جائیں گے، میں اس کے اوپر ہرجانہ کروں گا۔ کہ مجھ پر غلط الزام لگایا۔پھر ایف آئی اے کو پیچھے لگایا ہوا ہے، ایف آئی اے ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے تاکہ ڈونرز بھاگ جائیں۔ عمران خان نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، عمران ریاض، سمیع ابراہیم اسی طرح ارشد شریف کے ساتھ جو کچھ کیا گیا؟ وہ نمبر ون کا صحافی تھا، سب کو پتا تھا اس کو کوئی خوف نہیں ہے، مجھے اور ارشد شریف کے گھروالوں کو پتا ہے کہ وہ کیوں ملک چھوڑ کرگیا ہے۔ بند کمرے میں جو پلان تھا میں نے 24ستمبر کو آگاہ کردیا تھا،مجھے ان کی منصوبہ بندی کا پتا تھا اسی لیے میں نے بھی پلان بنایا ہوا تھا، تین لوگوں نے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، رانا ثناء اللہ نے کیوں بنایا کیونکہ وہ ایک قاتل ہے، شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ نے نہتے لوگوں پر ماڈل ٹاؤن میں گولیاں چلائی تھیں، طاہر القادری نے پی پی گورنمنٹ میں لانگ مارچ کی تھی، یہ ڈرے ہوئے تھے، یہ خوف طاری کرنا چاہتے تھے، انہوں نے پھر لوگوں کو قتل کیا،یہ رانا ثناء اللہ نے لانگ مارچ سے بچنے کیلئے ماڈل ٹاؤن میں قتل کرائے۔
عابد شیر علی کے والد نے کہا اس نے 18قتل کرائے۔ دوسری طرف شہبازشریف جس پر ہیومن رائٹس کی رپورٹ ہے، جب 1999تک وزیراعلیٰ تھا تو اس نے 900قتل کرائے تھے۔ یہی شہبازشریف جب ایف آئی اے کا16ارب کا کیس تھا۔لانگ مارچ میں لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اس مرانے کی منصوبہ بندی کی گئی، مجھے منصوبہ بندی کا پتا تھا اسی لیے ایک اور پلان بنایا ہوا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ کنٹینر پر فائرنگ کی جاتی ہے تو میری ٹانگ پر گولی لگتی ہے اور میں گرجاتا ہوں، ایک حملہ آور نے سائیڈ سے اور دوسرے نے سامنے سے فائرنگ کی، جب میں گرا تو میرے اوپر سے گولیاں گزری تھیں، میرے خیال میں جو سامنے حملہ آور تھا جب میں گر گیا تو وہ سمجھا کہ میں مرگیا ہوں، جو ایک شخص پکڑا گیا وہ اصل میں جنونی نہیں تھا اس کے پیچھے پورا پلان تھا، جو ملزم پکڑا گیا اس کی فائرنگ سے میں بچ سکتا تھا، اصل منصوبہ سامنے حملہ آور کا تھا۔
پلان بنایا ہوا تھا اگر میں اس ملزم سے بچ جاتا تو دو اور آدمیوں نے گولیاں چلانی تھیں، اگر دو ہیرو نہ نکل آتے، ایک شہید معظم جس کو میں سلام پیش کرتا ہوں، دو بچو ں کا باپ تھااور دوسرا ابتسام جس طرح اس نے پکڑا، اس کی دلیری نہ ہوتی تو اس ملزم نے اور تباہی کرنی تھی، 11لوگوں کو گولیاں لگیں۔ ہم نے ایف آئی آر رجسٹرڈ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن سب ڈرتے ہیں، یہ قانون سے اوپر ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں