وزیر آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے ، ان پر فائرنگ کرنے والے ایک مبینہ حملہ آور کو گرفتار کرلیا گیا ہے تاہم حملہ آور کا ہاتھ روکنے والے نوجوان سمیت عینی شاہدین اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے حملے کی نوعیت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑا جو سوال سامنے ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملہ نائن ایم ایم پستول سے کیا گیا یا کسی خود کار ہتھیار کے ذریعے عمران خان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی؟پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ عمران خان پر حملہ نائن ایم ایم پستول سے نہیں کیا گیا بلکہ خود کار ہتھیار سے پورا برسٹ مارا گیا۔ اسی قسم کا بیان پی ٹی آئی رہنما افتخار درانی نے بھی نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں دیا۔ انہوں نے واقعے کو بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملے سے تشبیہہ دی اور کہا کہ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پسٹل والا شخص توجہ ہٹانے کیلئے تھا جب کہ فائرنگ کہیں اور سے کی گئی۔نجی ٹی وی کے بنی گالہ اور پی ٹی آئی کی بیٹ کرنے والے رپورٹر عبدالقادر اس وقت کنٹینر پر ہی موجود تھے جس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔ عبدالقادر کے مطابق عمران خان سمیت جو لوگ زخمی ہوئے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو گولیاں ٹانگوں پر لگی ہیں۔
پہلے تو یہی سمجھا گیا کہ شاید آتش بازی ہو رہی ہے لیکن جب پھر کنٹینر پر آواز آئی کہ گولی لگ گئی ہے تو اس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ رپورٹر کے مطابق کنٹینر پر جس جگہ حملہ کیا گیا وہاں ارد گرد اونچی عمارتیں بھی ہیں، جس طرح کے اینگل سے گولیاں لگی ہیں اس سے لگتا نہیں ہے کہ فائرنگ نیچے سے کی گئی ہے، بلکہ یوں لگتا ہے کہ کسی اونچی جگہ سے کنٹینر کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم اس حوالے سے حتمی بات تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔دوسری جانب حملہ آور کو روکنے والے نوجوان ابتسام کے اس حوالے سے دو بیانات سامنے آئے ہیں، پہلے ویڈیو بیان آیا جس میں نوجوان نے بتایا کہ کس طرح اس نے حملہ آور کو روکا۔ بعد ازاں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو میں اس نے واقعے کی زیادہ تفصیلات پر روشنی ڈالی۔ ابتسام کے مطابق حملہ آور پوری طرح تیار نہیں تھا، اس نے پستول نکال کر ایک گولی چلائی لیکن اتنی دیر میں وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکے تھے اور اسے نیچے کرچکے تھے۔ ابتسام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہاتھ نیچے کیا تو خود کار پستول کی باقی گولیاں نیچے کی طرف چلیں جن میں سے ایک گولی موقع پر موجود شخص کو بھی لگی اور وہ زخمی بھی ہوا ہے۔
عمران خان پر حملے کے حوالے سے چاروں لوگوں کے بیانات ایک ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ حملہ آور صرف وہ نہیں تھا جس کو پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے بلکہ کوئی اور شخص بھی اس حملے میں شامل تھا، اس حوالے سے پولیس کی تحقیقات ہوں گی تو اصل صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں