اسلام آباد (پی این آئی ) صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین نے ارشد شریف کے قتل کے معاملے انتہائی اہم سوال اٹھا دیے ، شعیب شاہین نے کہا کہ ارشد شریف کا خون ہمارے کندھوں پر ہے ، ہماری ذمہ داری ہے کہ اس معاملے کو رفع دفع نہ کیا جائے ، ہمیں جوڈیشل انکوائری کے علاوہ کوئی انکوائری قبول نہیں ۔
گفتگو کرتے ہوئے شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ہم بجا طور پر سمجھتے ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی بجائے سپریم کورٹ کے جج کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہئیں ، تحقیقات ہونی چاہئیں کہ ان کے خلاف یہاں 15،16 ایف آئی آرز کاٹی گئیں، انہیں کن حالات میں ملک چھوڑناپڑا ،کیا وجوہات تھیں کہ انہیں یو اے ای کی حکومت نے وہاں سے بھی ڈیپورٹ کرنے کا حکم دیا ، کس نے یو اے ای کی حکومت سے رابطہ کر کے 48 گھنٹے کی مہلت دی ، ان کے پاس کوئی آپشن نہ تھی اس لئے وہ کینیا گئے ، وہاں بھی ان کے ڈرائیور کو گولی نہیں لگی ۔ ہمارے اوپر فرض ہے کہ انکے قتل کا سراغ لگائیں ، قاتلوں تک پہنچیں ، جنوہں نے ان کی ٹارگٹ کلنگ کی ان سارے واقعات کی کڑیوں کو جوڑنا ہوگا اور پتہ کرنا ہوگا کہ کون لوگ ملوث ہیں۔
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق ارشد شریف نے برطانیہ کے ویزے کیلئے اپلائی کیا تو انہیں کہا گیا کہ آپ اپنے ملک سے اپلائی کریں ، انہیں محفوظ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ، ان کے قتل کے بعد بھی 24 گھنٹے تک برطانوی پولیس کی کوئی آفیشل سٹیٹمنٹ نہیں آرہی تھی ، جن حالات میں ارشد کو قتل کیا گیا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے اسے قتل کیا گیا ، گاڑی پر فائرنگ بعد میں کی گئی ۔ نیروبی کے سابق گورنر کے ڈیتھ سکواڈ سے متعلق بیان پر شعیب شاہین نے کہا کہ اگر کوئی ڈیتھ سکواڈ انہیں فالو کر رہا تھا تو پھر پولیس کو بھی انہیں لوگوں نے ہائر کیا ہوگا ۔ بڑا ٹارگٹ لینا ہو تو کسی ایک پر اعتبار نہیں کیا جاتا ، ایک گروپ کو بھی وہی ٹارگٹ دیتا جاتا ہے اور دوسرے کو بھی ، ایک گروپ تاک میں تھا کہ دوسرے نے ارشد شریف کوقتل کر دیا ہو گا۔شعیب شاہین نے کہا کہ پولیس نے اعتراف کرلیا کہ انہوں نے ہی ارشد شریف کو قتل کیا ہے۔
کبھی کہتے ہیں گاڑی چوری کی تھی ، کبھی کہتے ناکے پر نہیں رکے ، اگر انہیں ٹارگٹ کر کے مارا گیا ہے تو کون کون سی طاقتیں تھیں، سابق گورنر کی ڈیتھ سکواڈ کے بیان کا مطلب ہے کہ ان افراد کی شناخت سامنے آچکی ہے ، کینیا حکومت کا فرض ہے کہ انہیں گرفتار کرے ۔ اگر حکومت پاکستان کی خواہش ہے کہ قاتل سامنے آنے چاہئیں تو ان پر کینیا جا کر تحقیقات کرنے کی کوئی پابندی نہیں کیونکہ اگر کینیا اس معاملے میں تعاون نہیں کرتا تو پھر وہ دہشتگردی کو پروموٹ کر رہا ہے ، ایسا میں آپ اقوام متحدہ سے رجوع کر سکتے ہیں اور اقوام متحدہ کے وفد کے ساتھ اپنے ایکسپرٹ لے کر کینیا جا سکتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں