لاہور (پی این آئی) تحریک انصاف نے لانگ مارچ کی حکمت عملی فائنل کر لی۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے آغاز کے بعد اس حوالے سے تحریک انصاف کی حکمت عملی کی تفصیلات بھی سامنے آ گئی ہیں۔ دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کا لانگ مارچ ایک ہفتے کی تاخیر یعنی 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کا امکان ہے۔
بتایا گیا ہے کہ عمران خان اس دوران پنجاب بھر میں عوامی رابطہ مہم چلا کر عوام کو لانگ مارچ کا حصہ بنائیں گے۔ عمران خان کا اب اسلام آباد واپس جانے کی بجائے پنجاب میں ہی قیام کیے جانے کا امکان ہے، چئیرمین تحریک انصاف لانگ مارچ کی تیاریوں کو لاہور سے مانیٹر کریں گے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ہر ضلع کی تنظیم کو ہر ضلع سے 6 ہزار کارکنان کو لانگ مارچ میں لانے، کھانے پینے کے انتظامات مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔جبکہ مرکزی رہنما، اراکین اسمبلی، متعلقہ تنظیمیں اپنے اپنے قافلوں کی قیادت کرتے ہوئے لبرٹی چوک پہنچ کر لانگ مارچ میں شامل ہو جائیں گے۔ جبکہ لانگ مارچ کی موومنٹ کے حوالے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد کی جانب سے بڑھنے والا لانگ مارچ صرف دن کے اوقات میں آگے بڑھے گا، رات ہو جانے پر لانگ مارچ اس وقت جس مقام پر ہو گا، وہیں رک جائے گا، عمران خان کی تقریر کے بعد رات کا قیام وہیں ہو گا۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کا کوئی ٹائم فریم نہیں کہ کب تک جاری رہے گا۔
مجھے گرفتاری کا کوئی خوف نہیں بیگ تیار کرکے بیٹھا ہوں، خدارا ملک کی فکر کریں ڈیفالٹ کرگئے تو بہت نقصان ہوگا، شفاف الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں ، مستقبل کا فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے۔ انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعے کولبرٹی چوک لاہور سے اسلام آباد کیلئے لانگ مارچ شروع کررہا ہوں، لبرٹی چوک لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ لانگ مارچ کا مقصد کیا ہے؟ مجھے کہا گیا آپ غیرذمہ دار ہیں ملک مشکل وقت میں ہے لیکن آپ احتجاج کررہے ہیں، میں قوم کویاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب پاکستان ملاتھا بینک کرپٹ پاکستان تھا، زرمبادلہ ذخائر گر کرکے 9ارب کے قریب تھے۔ ایکسپورٹ پانچ ملک کی بڑھی ہی نہیں تھی، ہمیں جو پاکستان ملا اس پاکستان کے اندر سب بڑا کرائسز یہ تھا کہ گرتے روپے کو روکنے کیلئے پیسا نہیں تھا، لیکن دوست ممالک نے مدد کی، پھر کورونا آگیا، اس سے نکلے دنیا نے تعریف کی، اس سے نکل کر 17سال بعد ملک کی سب سے بہتر معاشی گروتھ تھی، ہماری چار بڑی فصلوں کی سب سے زیادہ پیداوار تھی، ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا، بلین ٹری سونامی کی دنیا نے تعریف کی۔ہمارے دور میں بلاول بھٹو نے 2مارچ کیے ، مولانا فضل الرحمان نے ایک مارچ کیے۔ ہم نے تو کسی کو مارچ سے نہیں روکا، تب تو کسی نے پرواہ نہیں کی کہ پاکستان کتنی مشکل میں ہے۔ ہم نے مارچ پہلے ہی کردینا تھا۔
ہم پر 25مئی کو تشدد کیا گیا، اگر اس مارچ کو ختم نہ کرتا تو اگلے دن حالات خراب ہونے تھے۔ اس لیے اس مارچ کو روک دیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ان چوروں کو ہم پر مسلط کیا گیا،پھر ہم نے پرامن احتجاج کیا تو اس پر تشدد کرتے ہیں، مجھ پر 24ایف آئی آراز اور بڑی لیڈرشپ پر مقدمات بنائے گئے۔میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں، کہیں مثال نہیں ملتی۔ سب سے بڑا جو انہوں نے ارشد شریف کے ساتھ کیا ، ایسا کوئی دشمن سے بھی نہیں کرتا، ارشد شریف کبھی ضمیر کا سودا نہیں کرتا، وہ ہمیشہ ملک کیلئے کھڑا ہوتا تھا۔ اس کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ اپنے مئوقف سے ہٹ جائے، میں نے اس کو مشورہ دیا پھر وہ ملک چھوڑ کر گیا۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے کہ اسلام آباد میں ابھی سے کانپیں ٹانگنا شروع ہوگئی ہیں، سیاسی جماعتیں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں، ہم آج بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن یقین ہوگیا کہ یہ الیکشن نہیں کرائیں گے، اب یہ مجھے غیرقانونی طریقے سے انتخابات نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، پہلے فارن فنڈنگ میں نااہل کرانے کی کوشش کی، اب توشہ خانہ کیس میں نااہل کرنے کی کوشش کی۔گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے باوجود الیکشن نہیں جیتے۔انہوں نے کہا کہ میں واضح کردوں کہ لانگ مارچ جمعے کو صبح 11بجے شروع ہوجائے گا، یہ نہیں کہ میں جمعے کو لانگ مارچ کا اعلان کروں گا،ہماراپرامن احتجاج ہے، تشدد کا راستہ نہیں اپنائیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں