لاہور (پی این آئی) ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ملک میں معیشت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کا دروازہ کھل سکے گا اور ملک میں براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی کیونکہ گرے لسٹ میں موجودگی کے باعث کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی پاکستان میں سرمایہ لگانے یا بینکوں پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتی تھی،
اس اعتماد کو بحال ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ ایک نادر موقع ہے کہ پاکستان کا بینکنگ سیکٹر خود کو مضبوط کر سکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں فیٹف سفارشات کے تحت بنائے ہوئے قوانین پر عمل ہوتا رہے۔بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف نے برطانوی نشریاتی ادارے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے لیے یہ خوش آئند بات ہے کہ اسے فیٹف نے اپنی انہانسنڈ مانیٹرنگ لسٹ سے بلآخر باہر کر دیا ہے۔اب پاکستان ریگولر مانیٹرنگ میں آ جائے گا جس سے ایک بڑی سہولت بینکنگ سیکٹر میں ملے گی جس کے تحت پاکستان کو سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے دی جانے والی امداد اب باآسانی مقامی بینکوں میں آ سکے گی اور اس پیسے کی جانچ پڑتال کم ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ انفارمل ٹریڈ، جس پر خاصی قدغن لگ گئی تھی، وہ بھی کم ہو جائیں گی۔ہارون شریف نے کہا کہ ویسے تو گرے لسٹ سے ہمیں فیٹف کے پچھلے اجلاس کے بعد نکل جانا چاہیے تھا۔سنہ 2018ء سے لے کر 2022ء تک پاکستان کو ان تمام سفارشات کو مکمل کرنا تھا جس کے بارے میں فیٹف نے پاکستان کو مکمل پلان تیار کر کے دیا تھا۔ یہ تمام عرصہ ان 34 سفارشات کی تکمیل میں لگ گیا۔ہارون شریف نے کہا کہ اداروں کے اندر اصلاحات لا کر ان کو مظبوط کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ کہیں بھی مشتبہ ٹرانزیکشن ملے تو اس گروہ کے خلاف یا اس فرد کے خلاف یا اس کمپنی کے خلاف فوری قدم اٹھایا جائے اور اقدام ایسا ہو کہ پاکستان سے باہر بھی لوگ اسے نوٹ کریں۔
اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے براہِ راست معاشی فوائد تو نظر نہیں آئیں گے لیکن اس سے کم از کم ہم پر سے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہوتا ہے تو غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کو اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے سے مالیاتی لین دین میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اب جب پاکستان اس لسٹ سے باہر نکل آیا ہے تو ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں براہِ راست سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوں گی۔
تاہم عزیر نے کہا کہ یہ ایک سست رفتار مرحلہ ہوتا ہے اسی لیے اس کے معیشت پر اثرات نظر آنے میں کچھ وقت لگے گا، تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ہم اب بلیک لسٹ میں نہیں جا رہے اور نہ ہی گرے لسٹ میں رہیں گے۔جب ہم نے عزیر یونس سے پوچھا کہ مستقبل میںاس لسٹ سے باہر رہنے کا کیا راستہ ہے تو انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ہونے کے دو حصے تھے، جن میں ایک تو مالیاتی نظام کو مضبوط کر کے منی لانڈرنگ کا سدِباب کرنا تھا تو دوسری طرف داخلی سطح پر ان افراد اور ان تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی تنظیمیں اور افراد اگر نئے روپ میں سامنے آئے اور دوبارہ پاکستان میں آپریٹ کرنے لگے تو بعید نہیں کہ ایک مرتبہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے کے بعد ہم دوبارہ بھی اس لسٹ میں جا پہنچیں۔عزیر یونس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس حوالے سے اپنے مالیاتی نظام کو بہت تگ و دو کے بعد ایف اے ٹی ایف کی سفارشات سے ہم آہنگ کیا ہے، مگر زمینی صورتحال کو بھی قابو میں رکھنا اتنا ہی اہم ہو گا جتنا کہ مالیاتی نظام کو۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں