اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ ہمارا قومی اسمبلی میں جانے کا کوئی بھی امکان نہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ نیب قوامین میں جو ترامیم ہوئی ہیں یہ تو اضح طور پر این آر او ہے۔ان کا مقصد نوازشریف کو واپس لانا ہے۔انہوں نے حکومت ہی اسی لیے تھی تاکہ کسی طرح ان کے کرپشن کے مقدمات ختم کرائے جائیں۔
جس تحقیقاتی کمیٹی کا چئیرمین راناثناء اللہ ہو اس سے کون مطمئن ہو گا، اگر تحقیقات کرانی ہیں تو کسی جوڈیشل کمیشن سے کرائیں۔زلفی بخاری نے کہا کہ ہمارا قومی اسمبلی میں جانے کا کوئی بھی امکان نہیں ۔استعفوں کے حوالے سے کوئی تضاد نہیں۔پی ٹی آئی کے سارے کے سارے استعفے قبول ہونے چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے یہ حکومت ہمارے استعفے قبول کر رہی ہے اس کے پیچھے ایک سازش ہے۔دوسری جانب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے استعفوں کے معاملے پر ریمارکس دئیے ہیں کہ پہلے پیٹشنر مطمئن کریں کہ حقیقی معنوں میں کلین ہینڈز کے ساتھ آئے ہیں،یہ بھی کہیں کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں،یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں میری مرضی کے مطابق چیزیں ہوئیں تو مانیں گے۔ صرف یقین دہانی نہیں اپنے عمل سے ثابت کریں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے،اسمبلی کا ممبر ہو کر اسمبلی سے باہر رہنا اس مینڈیٹ کی توہین ہے،کیا عدالت درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرانے کیلئے درخواست منظور کرے؟ آپکی پارٹی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی کی پالیسی ہے کہ ہم اب ایم این ایز برقرار ہیں۔
استعفے درست طور پر منظور نہیں ہوئے اس لیے پارٹی اب استعفے نہیں دینا چاہتی،اب 11 کو منتخب کر کے استعفے منظور کیے گئے،پی ٹی آئی نے استعفے دیئے کہ تمام 124 منظور کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ارکان نے جینوئن استعفے دیئے تھے یا اپنے لیڈر کی خوشنودی کیلئے؟پانچ دن میں ثابت کریں کہ آپ کلین ہینڈز کے ساتھ آئے ہیں،یہ عدالت آپکو پانچ دن کا وقت دے دیتی ہے۔علی ظفر نے کہا کہ اگر پانچ دن بعد پارٹی پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ ارکان موجود نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ میں نہیں جانا تو یہ ارکان بحالی کیوں چاہ رہے ہیں؟ یہ عدالت درخواست گزاروں اور انکی پارٹی کے کنڈکٹ کو دیکھ رہی ہے،عدالت آپکو پارلیمنٹ جانے کا نہیں کہہ رہی لیکن آپکے مؤقف میں تضاد ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں