اسلام آباد: پاکستان اس وقت شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آچکا ہے اور 2010کے بعد پاکستان کو شدید ترین سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں صنعتیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔صنعتوں سے گرین ہائوس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو زمین کے درجہ حرارت کو بڑھانے کا سبب بن رہاہے۔پاکستان کا حصہ ان صنعتی مضر گیسوں کے اخراج میں دنیا بھر کے مقابلے 1فیصد سے بھی کم ہے لٰہذا پوری دنیا خصوصاََ ترقی یافتہ ممالک کے جرائم کی قیمت ہمیں اداکرنا پڑ رہی ہے۔
قطب شمالی کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز پاکستان میں ہیں جن کی تعداد7 ہزار 253 گلیشئرز ہیں، تمام گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔جس بڑے پیمانے پر سیلاب آیا ہے حکومت پاکستان کے پاس قدرتی آفات کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس مشکل صورتحال کو سنھبالنے کی نہ تو صلاحیت ہے، نہ منصوبہ بندی اور نہ ہی وسائل ہیں۔ حکومت کم از کم یہ کام کر سکتی ہے کہ دنیا کو یہ باور کرائے کہ ان کی کوتاہیوں کی سزاپاکستان بھگت رہا ہے۔لہذا دنیا ہماری حالت زار کی طرف دیکھ لےاور ہماری مدد کی جائے کیونکہ یہ دنیا کی ذمہ داری بنتی ہے۔ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی لالچ کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ دنیا کے ذمہ دار ممالک اور ادارےاس مشکل صورتحال کی طرف متوجہ ہوںاورپاکستان کو ان مشکلات پر قابو پانے میںتکنیکی اور مالی مدد فراہم کی جائے ۔
عالمی مالیاتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان کے قرضوں میں نرمی کی جائے اور پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے فنڈنگ کی جائے ۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی آگے آنا چاہئے اور پاکستان کی اتنی مدد کرنی چاہئے جتنا وہ موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ابتدائی تخمینے کے مطابق نقصان تقریباً 30ارب ڈالر ہے۔بین الاقوامی برادری خاص طور پر وہ ممالک جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی میں زیادہ حصہ ڈالا ہے، کو اس کا ادراک کرنا ضروری ہے۔
اس حوالے سے برطانیہ کی رکن پارلیمنٹ “کلاڈیا ویب “نے عالمی برادری کا ضمیر جھنجوڑتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہمارے لالچ کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔
اسی حوالے سے چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کا دورہ کیاتھا۔ دورے کے دوران عالمی برداری سے بڑے پیمانے پر امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔انتونیو گوتیرس نے عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا پاکستان کے فلڈ ریسپانس پلان کی فنڈنگ کیلئے اقوام متحدہ نے ابتدائی طور پر 16کروڑ ڈالر کی فلیش اپیل کی تھی جو سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ناکافی ہے ، دورہ پاکستان کا مقصد عالمی برادری سے پاکستان کے لئے مدد کی اپیل ہے ، اس تباہی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کواس سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے ،عالمی برادری کی مدد انتہائی ضروری اور اہمیت کی حامل ہے ، یہ محض اظہار یکجہتی کی حد تک نہیں بلکہ انصاف کی بات ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونیوالی مون سون کی غیر معمولی بد ترین بارشوں کی وجہ سے آنیوالے سیلاب سے پاکستان میں سوا 3کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیںاور سیلاب سے اب تک 1500 سےزائداموات ہوچکی ہیں۔اندازے کے مطابق دس لاکھ گھرمکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔اس انسانی المیے پر دنیا کو توجہ دینی چاہئے کیونکہ کروڑوں انسانوں کی جانیں اب ان ترقی یافتہ ممالک کے رحم و کرم پر ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کےاصل ذمہ دار ہیں۔
کاربن کے پھیلاؤ میں جی 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے ، ترقیاتی ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے آگے آنا چاہئے ، صنعتی ممالک کو بدترین کاربن کے اخراج میں کمی کرنی چاہئے ، آج پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے تو کل کوئی اور ملک ہو گا، اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو مستقبل میں بہت زیادہ خطرہ ہو گا، مشکل کی اس گھڑی میں اقوام عالم اور عالمی اداروں کو پاکستان کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کو لاکھوں افراد کی بحالی کیلئے فوری طور پر بڑی مالی امداد کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں