اسلام آباد (آئی این پی) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور معروف قانون دان ظہیر الدین بابر اعوان نے کہاہے کہ عمران خا ن کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے بہت سے پہلو ہیں، عدالتی معاون وکیلوں کی رائے بھی دو طرح کی تھیں ، ایک رائے یہ تھی کہ اظہار ندامت کے بعد عدالت کو نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، دوسری رائے یہ تھی کہ نوٹس کو ڈسچارج کر کے ندامت قبول کرلی جائے، توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ماورائے آئین بنایا گیا تھا، اس قانون سے لوگوں میں تقسیم پیدا ہو گی،
جبکہ دنیا کے بڑے ملکوں میں توہین عدالت کا قانون نہیں ہے، شرعی عالتوں میں توہین عدالت کا تصور تک موجود نہیں ۔جمعرات کو رہنما پاکستان تحریک انصاف اور معروف قانون دان ظہیر الدین بابر اعوان نے عمران خان پرتوہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے حوالے سے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے بہت سے پہلو ہیں، عدالت نچلی عدالت کے سوال متاثر ہونے کے خدشے پر فیصلہ دیا ہے لیکن دوسری طرف ایک مقبول لیڈر ہے اور پوری قوم کا مورال بھی رونما ہے، عدالت میں عدالتی معاون وکیلوں کی رائے بھی دو طرح کی تھیںعدالتی معاون وکیل قیصر اے ملک کی رائے یہ تھی اظہار ندامت کے بعد عدالت کو نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، دوسری رائے یہ تھی کہ نوٹس کو ڈسچارج کر کے ندامت قبول کرلی جائے،عدالتی معاونین نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کی، عدالتی معاونین نے کہا کہ عدالت کا وقار اس کے فیصلوں سے پہنچانا جاتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو معیار ہے کوئی اس پراثرانداز نہیں ہوسکتا، الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔ معاونین نے کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کو معاف کردے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ ان کا ارادہ کسی کو ٹارگٹ کرنا نہیں تھا،
اس معاملے پر دو نتائج سامنے آئیں گے ،ایک عدالت میں دوسرا عدالت سے باہر عوام میں ہو گا، باہر سے جو فیصلہ آئے گا وہ الگ قسم کا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ماورائے آئین بنایا گیا تھا، اس قانون سے لوگوں میں تقسیم پیدا ہو گی، جبکہ دنیا کے بڑے ملکوں میں توہین عدالت کا قانون نہیں ہے، شرعی عدالتوں میں توہین عدالت کا تصور تک موجود نہیں ہے۔ بابر اعوان نے کہا کہ ایک شخص پر 29مقدمے بنائے گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف باپ، بیٹے بری ہو رہے ہیں تو میں کیسے عوام کو سمجھ ا سکوں کہ ملک میں قانون کی عملداری ہو رہی ہے، حکومت کھل کر کہہ رہی ہے کہ ابھی تو عمران خان کے خلاف کیسز نہیں آئے ہیں، ابھی تو آنے ہیں، اس پر بطور قانون والوں کیا سوچ ہو سکتی ہے وہ قوم کو نہیں بتا سکی ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ طلال چوہدری اور دیگر کے کیسز میں کریمنل کنٹیمپٹ نہیں تھی، دو سینیئر قانون دانوں نے جو دلائل دیے ان کی رائے سے متفق ہوں، فرد جرم عائد کرنا پانچ ججز کا فیصلہ ہے۔فیصل چوہدری نے کہا کہ قانونی آپشنز تو عمران خان کے پاس ہیں لیکن ان آپشنز سے متعلق ان کی لیگل ٹیم بہترسمجھ سکتی ہے،واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان پر فرد جرم عائد کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہاکہ ہم عدالتی معاونین کے مشکور ہیں ، دو ہفتے بعد 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائیگی، عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں