عمران خان کا پاک فوج سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیان ،صدر مملکت، وزیراعظم ، اسلام آباد ہائیکورٹ، پاک فوج اور صحافی برادری کی جانب سے شدید ردِ عمل

اسلام آباد(پی این آئی) گزشتہ روز عمران خان نے فیصل آباد میں جلسےسے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت سے متعلق متنازعہ باتیں کہیں۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی جلسہ عام میں ملک کی فوج کے سربراہ کی تقرری کا تذکرہ ایک انتہائی متنازعہ لفظوں اور غیرذمہ دارانہ انداز میں کیا گیا۔اس سے قبل اگر کسی مقرر نے جلسے میں اس موضوع پر کوئی بات کی ہے تو تقرری کو میرٹ پر ہونے یا کیے جانے کے حوالے سے کی ہے وہ بھی سپہ سالار کے منصب پر ہرگز نہیں۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نےعمران خان کے بیان سے اظہار لاتعلقی اختیار کیا اور عمران خان سے ان کے بیان کی وضاحت بھی مانگی ۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی حب الوطنی پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا ، آرمی چیف سمیت تمام فوجی محب وطن ہیں ، پاک فوج سیلاب زدگان کی امدادمیں مصروف ہے ۔عمران خان اپنےبیان کی خود وضاحت کریں ۔

 

 

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا بھی اس حوالے سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔سوشل میڈیا پر جاری بیان میںوزیراعظم نے لکھا کہ اداروں کو بدنام کرنے کے لیے عمران نیازی کی نفرت انگیز باتیں نئی سطحوں کو چھو رہی ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی کا مذموم ایجنڈا واضح طور پر پاکستان کو تباہ اور کمزور کرنا ہے، اب وہ مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف براہ راست کیچڑا چھالنے اور زہریلے الزامات میں ملوث ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا بھی عمران خان کے بیان پر شدید ردِ عمل آیا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا افواج پاکستان سے متعلق بیان دیکر آپ ان کا مورال ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے عمران خان کا کل کا بیان سنا؟ کیا سیاسی لیڈر شپ اس طرح ہوتی ہے؟ کیا گیم آف تھرونز کے لیے ہر چیز کو اسٹیک پر لگا دیا جاتا ہے؟

 

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افواج پاکستان ہمارے لیے جان قربان کرتے ہیں، اگر کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو سب تنقید کرتے ہیں، اپنی بھی خود احتسابی کریں کہ آپ کرنا کیا چاہ رہے ہیں، آپ چاہتے ہیں جو مرضی کہتے رہیں اور ریگولیٹر ریگولیٹ بھی نہ کرے۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالتوں سے ریلیف کی امید نہ رکھیں، یہ عدالت کا استحقاق ہے، ہر شہری محب وطن ہے، کسی کے پاس سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار نہیں، بیان دیں کہ کوئی محب وطن ہے،کوئی نہیں، پھر آپ کہتے ہیں انہیں کھلی چھٹی دے دیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ افواجِ پاکستان سے متعلق ایسا بیان دے کر کیا آپ ان کا مورال ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ افواجِ پاکستان میں کوئی محب وطن نہیں ہو گا؟۔حکمران اتحاد نے بھی عسکری قیادت سے متعلق عمران خان کے بیان کی مذمت کی اور اس بیان کیخلاف اعلامیہ جاری کیا گیا۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور حساس پیشہ ورانہ امورکو متنازع بنانےکے بیان کی مذمت کرتے ہیں۔

 

حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ قوم سیلاب سے جبکہ عمران خان مسلح افواج سمیت قومی اداروں اور عوام سے لڑ رہےہیں اور اداروں پر سنگین بہتان تراشی کر رہےہیں۔بیان میں حکومتی اتحاد جماعتوں نے کہا کہ بہتان تراشی کا مقصد معاشی بحالی کے عمل کو متاثر کرکے پاکستان کو سری لنکا بنانا، عوام کو فوج سے لڑانا اور رینک اینڈ فائل میں تصادم کی راہ ہموارکرنا ہے لیکن ہم آئین اور قانون کی طاقت سے اس مذموم سازش کو ناکام بنائیں گے۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق مسلح افواج سمیت قومی اداروں اور ان کی قیادت کے آئینی احترام کو ہرگز متاثر نہیں ہونے دیں گے، اس کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان کی امداد، بحالی اور ریلیف کے عمل کو بھی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔پاک فوج کا بھی عمران خان کے بیان پر شدید ردِ عمل آیا جس میں پاک فوج کا غم و غصہ واضح تھا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ آرمی چیف کے انتخاب کے عمل کو متنازع بنانا نہ ریاست پاکستان اور نہ ہی ادارے کے مفاد میں ہے، پاک فوج آئین پاکستان کی بالادستی کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

 

آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ پاک فوج کی سینئر قیادت کی اہلیت اور حب الوطنی دہائیوں پر محیط بے داغ، شاندار عسکری خدمات سے عیاں ہے، پاک فوج قوم کی سکیورٹی اور حفاظت کے لیے ہر روز جانیں قربان کر رہی ہے۔واضح رہے کہ پاک فوج میں تمام تقرریاں اور ترقیاں میرٹ کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہیں۔ پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کو اس عہدے تک پہنچنے کیلئے سخت تربیت اور سکریننگ سے گزرنا پڑتا ہے او ر ایک کورس میں صرف ایک یا دو لوگ ہی اس عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پاک فوج پاکستان میں سب سے زیادہ ڈسپلن کو فالو کرنیوالا ادارہ ہے۔پاک فوج کی قیادت سے متعلق ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف دشمن کی خوشی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ملکی سلامتی کیلئے بھی بڑا خطرہ ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں