پشاور (آئی این پی)جمعیت علمائے اسلام(ف) کے امیر اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے سربراہ و مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ جتنا طاقتور سے طاقتور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا، ہمارے آبائی تہذیبی سلسلے کو ختم کر دیا گیا ہے، یہ اپنی مرضی والی مخلوق نے معاشرے کو تباہ کیا ہے، اگر کوئی طاقت ہمارے نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرتا ہے، اپنے بزرگوں سے نسبت کو ختم کرتا ہے تو سب سے پہلا فرض علما کا بنتا ہے کہ وہ گلی، گلی، کوچے، کوچے، مسجد، مسجد اور مدرسہ جا کر قوم کو اسلام کی راہ بتائیں،
دامن پر کالا داغ لگانے کی کوشش کی تو فائل تمہارے منہ پر ماریں گے ، عمران خان کے پاس فارن فنڈنگ کیس میں اسرائیل سے پیسہ آیا ہے، تمہارے پاس بھارت سے پیسہ آیا ہے جبکہ تمہارے گھر کا کرایہ 9 سال تک امریکی سفارت خانہ دیتا رہا ہے، پھر بھی تم آزادی کی بات کرتے ہو ، آئین کو زندہ رکھنا ہے، آئین کو زندہ رکھیں گے تو ادارے زندہ رہیں گے، اگر ادارے آئین کو نہیں مانتے تو پھر کیا کریں گے، ہم نے پگڑیاں اس لیے نہیں پہنیں کہ سر جھکا کر چلنا ہے، ہم نے پگڑیاں سر اٹھا کر چلنے کے لیے پہنی ہیں ۔ہفتہ کوجمعیت علمائے اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا پشاور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے آبائی تہذیبی سلسلے کوختم کر دیا گیا ہے،
بزرگوں سے نوجوانوں کا تعلق ختم کر دیا گیا ہے، ماں، باپ، برزگوں کی عزت ختم ہو جائے، اور کہا جائے کہ ہماری مرضی، یہ اپنی مرضی والی مخلوق نے معاشرے کو تباہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پتہ چلا کہ کس کے خلاف سازش ہوئی ہے، عمران خان کہتا ہے کہ بیرونی سازش کے تحت مجھے اقتدار سے نکالا گیا، آپ کو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے نہیں نکالا گیا، بین الاقوامی طاقت کے تحت آپ کو لایا گیا تھا۔ انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ہم تمہاری اصلیت کو جانتے ہیں، تمہارے پیچھے کونسی قوتیں کارفرما ہیں،
افسوس اس بات کا ہے کہ میرے ملک کی اشرافیہ جن کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو، ان کے گھروں کے اندر اس کو سپورٹ ملی ہے، وہ بین الاقوامی نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ رہے ہیں،مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے معمولی جنگ نہیں لڑی، اس کو اقتدار سے نکالنا کافی نہیں ہے، ان کے نام و نشان اور قدموں کے نشانات کو بھی مٹانا ہے لہذا ہتھیار نہیں ڈالنے بلکہ میدان جنگ میں رہنا ہے، سیاسی اور آئینی جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں علمائے کرام سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی طاقت ہمارے نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرتا ہے، اپنے بزرگوں سے نسبت کو ختم کرتا ہے تو سب سے پہلا فرض علما کا بنتا ہے کہ وہ گلی، گلی، کوچے، کوچے، مسجد، مسجد اور مدرسہ جا کر قوم کو اسلام کی راہ بتائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کو یہ خیال ہے کہ میرے پاس بھی مولوی ہیں تو اس طرح کے مولوی حضرت فرنگی کے ساتھ بھی ہوتے تھے، ان سے مرعوب نہ ہونا، یہ ہمارے علمائے کرام کی چھٹی انگلی ہے جسے ہم نے کاٹ کر پھینک دیا ہے۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ عدلیہ ایک ادارہ ہے، عدلیہ کسی بھی ریاست کے لیے ناگزیر ادارہ ہوا کرتا ہے، اور اس کا احترام، عزت اور توقیرکو اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن اگر ایک شخص اپنی ذات میں جج کے عہدے پر فائز ہو کر اپنے رویے سے متنازع بن جاتا ہے اور وہ اپنے اوپر فرض کر لیتا ہے کہ میں نے ایک فریق کو تحفظ دینا ہے، اور اس کے لیے میں نے عدلیہ کو استعمال کرنا ہے، میں انہیں بتنا اچاہتا ہوں کہ اس کے بڑے دوررس نتائج ہوا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ فوری نتائج کو نہ دیکھا دیں، آپ نے فوری طور پر ایک فریق کو ریلیف مہیا کر دی لیکن دوررس نتائج یہ ہوتے ہیں کہ اسی سے ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں،
کیا یہاں پر منظم طریقے سے ادارے کے اندر بیٹھے لوگوں نے جنہیں میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں، نے ہمارے خلاف جھوٹے کیس نہیں بنائے یا بنانے کی کوشش نہیں کی؟۔جے یو آئی(ف )کے امیر کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف کوئی فائل آئے گی تو ہمیں اپنے کردار کا پتہ ہے، ہمیں اپنے دامن کا پتہ ہے کہ وہ کتنا اجلا اور صاف ہے، اگر تم نے بدنیتی کے ساتھ ہمارے دامن پر کالا داغ لگانے کی کوشش کی تو فائل ہم تہمارے منہ پر مار دیں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جن کے اباواجداد کی پوری تاریخ غلامی سے بھری ہوئی ہے وہ لوگ آج نئی نسل کو آزادی کا درس دے رہے ہیں، اس کو پتہ ہے کہ آزادی کس چیز کو کہتے ہیں، آپ برطانیہ جائیں اور ایک پاکستانی نژاد مسلمان کے مقابلے میں کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل کے امیدوار کے لیے ووٹ مانگیں، تب بھی آپ آزادی کی بات کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ کیس میں تمہارے پاس اسرائیل سے پیسہ آیا ہے،
تمہارے پاس بھارت سے پیسہ آیا ہے جبکہ تمہارے گھر کا کرایہ 9 سال تک امریکی سفارت خانہ دیتا رہا ہے، پھر بھی تم آزادی کی بات کرتے ہو۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جس کی کابینہ کے سارے مشیر، کچھ وزیر اور ان کے گورنر یورپ کے شہری ہوں، وہ ہمیں آزادی کا درس دیتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ آزادی کس کو کہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ آزادی کے لیے تیرے آقاں کے ساتھ میرے اکابرین نے 100 سال سے زیادہ کا جہاد لڑا ہے، آزادی کا درس میرے پاس ہے، غلامی کا درس تیرے پاس ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھ میرے ابااجداد کا کردار بھی معلوم ہے اور تیرے ابااجداد کا بھی، تمہیں اپنے ابااجداد کا کردار مبارک ہو مجھے اپنے ابااجداد کا کردار مبارک، ہمارے کردار پر انگلیاں اٹھا گے،
ہمیں معاشرے میں ذلیل کرنے کی کوشش کرو گے اور پھر توقع رکھو گے کہ ہم تمہاری خوشامد کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جتنا طاقتور سے طاقتور شخص کسی بھی ادارے میں ہے، ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کسی طاقتور کے رعب کو تسلیم نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد میں تمام جماعتیں کیوں اکھٹا ہیں، جن میں مذہبی، روشن خیال، ملکی سیاست کرنے والے اور قوم پرست سب شامل ہیں، یہ لوگ اس لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ ملک کو بچانا چاہتے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ ایک ملک دشمن عنصر پاکستان میں بیرونی فنڈنگ کے ذریعے داخل ہوچکا ہے، اور وہ ملک کو کھوکھلا کر رہا ہے، اداروں کے لوگ بھی اس سے وابستہ ہیں جب تک وہ ادارے کے اندر موجود ہیں تب تک ان کا پتہ نہیں چلتا، جب وہ اپنا لباس اتارتے ہیں، پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کون لوگ اکھٹے ہوگئے ہیں، کن کے گھروں میں آنٹیاں رو رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پوری قوم سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اب جو ضمنی انتخابات آئیں گے اس میں ایک پارٹی کی طرح لڑیں گے، کوئی فرق نہیں کرے، ملک ہے تو ہم سب ہیں، آج ہم نے نظریاتی طور پر ملک کو بچانا ہے، اس کے جغرافیے کو بچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نے کہا کہ پاکستان تین ٹکڑے میں تقسیم ہو جائے گا، ملک کا آئین ہے اس کا معنی نہیں ہے، اگر یہ تہذیب چل رہی ہے، اگر یہ نظریہ فروغ پا رہا ہے تو پھر ہم پاکستان کی نظریاتی شناخت ختم کر دیں گے، ہمیں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو زندہ رکھنا ہے، آئین کو زندہ رکھنا ہے، آئین کو زندہ رکھیں گے تو ادارے زندہ رہیں گے، اگر ادارے آئین کو نہیں مانتے تو پھر کیا کریں گے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئین بلدیاتی اداروں کی بات کرتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں جب وہ شکست کھا گئے، اور مجموعی طور پر حکومتی جماعت اقلیت میں ہے، تو قانون بنایا جا رہا ہے کہ ان کو کوئی اختیار نہیں لوگوں کی خدمت کرنے کا، ان کے سارے فنڈ بند کردو۔انہوں نے کہا کہ ہاتھ جوڑ کر، درخواستیں دے کر، عدالتوں سے منت سماجت کرکے آپ یہ حق حاصل نہیں کرسکیں گے، آپ عوام کے نمائندے ہیں، عوام کو لے کر نکلیں اور گریبان میں ہاتھ ڈالیں کہ اختیارات کو سب کرنے والے یہ کون ہوتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم نے پگڑیاں اس لیے نہیں پہنیں کہ سر جھکا کر چلنا ہے، ہم نے پگڑیاں سر اٹھا کر چلنے کے لیے پہنی ہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں