کوئی اور لیٹر لکھوایا جارہاہے؟ مولانا فضل الرحمٰن اچانک چوہدری شجاعت کے پاس کیوں چلے گئے؟ مونس الٰہی کا ردِ عمل آگیا

اسلام آباد(پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء چودھری مونس الٰہی نے کہا ہے کہ فضل الرحمان نہ جانے کیا مطالبہ لے کر چودھری شجاعت کے پاس آئے ہیں، شاید کوئی لیٹر ہی لکھوانے آئے ہوں لیکن اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

 

مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء چودھری مونس الٰہی نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ سننے سپریم کورٹ پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ فضل الرحمان نہ جانے کیا مطالبہ لے کر چودھری شجاعت کے پاس آئے ہیں، شاید اب کوئی لیٹر ہی لکھوانے آئے ہوں لیکن اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اب کسی قسم کے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔یاد رہے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سربراہ مسلم لیگ ق چودھری شجاعت سے ملاقات کرنے ان کے گھر پہنچ گئے، جہاں پر چودھری شجاعت حسین سے مولانا فضل الرحمان نے ملاقات کی، مولانا فضل الرحمان نے چودھری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی۔ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور دیگر امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

 

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کے دوران ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے بھی کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کیا تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں؟.چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے کے علاوہ کچھ بھی نہیں، ستمبرکے دوسرے ہفتے تک فل کورٹ دستیاب نہیں ,ہماری ترجیح اس معاملے کوجلد ازجلدنمٹانا ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے؟ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔

 

اس سوال کے جواب کے لئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، یہ ایسا سوال نہیں تھا جس پرفل کورٹ تشکیل دی جاتی۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ فریقین کے وکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدرکی سربراہی میں1988میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قراردی تھی، اس پرعدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی. چیف جسٹس نے قراردیا کہ آرٹیکل63اے پرفیصلہ9رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا،عدالتی بائیکاٹ کرنیوالے تحمل کا مظاہرہ کریں،بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل63 اے کیس میں ہدایات پر کسی وکیل نے دلیل نہیں دی تھی عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمنٹری پارٹی ڈائریکشنز پرمعاونت درکارہے۔چیف جسٹس کی وکیل علی ظفرکو ہدایت کی کہ سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم بینچ سے الگ ہوجائیں۔

 

جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں دوران سماعت درخواست گزار پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیخلاف درخواستیں آرٹیکل 134 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججزنے الگ الگ لکھی تھیں۔درخواست گزار کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل63اے کوخلاف آئین قراردیاتھا،ان کی رائے تھی کہ 63اے ارکان کوآزادی سے ووٹ دینے سے روکتاہے وکیل پرویزالہٰی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، اسی لئے میں جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کس کی ہدایات پرووٹ دیاجائے،جس پر انہوں نے بتایا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟۔

 

پرویزالہٰی کے وکیل نے بتایا کہ پارلیمانی جماعت اورپارٹی لیڈردو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس اعجاز نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پرعملدرآمد کراتا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی،سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس پر وہ فیصلہ کرتی ہے علی ظفر نے واضح کیا کہ مشرف دورمیں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، 18ویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے بھی استفسار کیا کہ پارلیمنٹری لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہواہے؟ اپنے دلائل میں وکیل علی ظفرنے بتایا کہ 2002 میں پولیٹیکل پارٹیزآرڈر میں پارلیمنٹری پارٹی کا ذکرہوا، پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض حقائق کی غلطی ہے جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ 18ویں اور 21ویں ترامیم کے کیسزمیں آرٹیکل63 کی شقوں کا جائزہ لیا گیا،آرٹیکل63اے میں پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں