اسلام آباد ( نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غلطیوں سےعبارت ہے‘ حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا ، یہ نہیں ہوسکتا ججز اور جرنیل بند کمروں میں فیصلے کرتے رہیں۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تاریخ شاندار نہیں رہی، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے منٹس بھی لاکر پڑھ لیتے، صدر پاکستان نے بھی سپریم کورٹ کو خط لکھ رکھا ہے، سائفر کے نتیجے میں پاکستان میں حکومت تبدیل کی گئی ،
بہت سے لوگ سائفر کی تحقیقات نہیں کرانا چاہتے کیوں کہ سائفر کی تحقیقات ہوئیں تو اس پر بحث ہوگی ، عقلمندوں کو معلوم ہے کہ سائفر کی تفتیش آخر کیوں نہیں ہو رہی ، سائفر چیف جسٹس کے پاس موجود ہے اس کی انکوائری کرائے جائے، حکومت میں آنے کے بعداسمبلی میں سائفر کی مکمل تحقیقات کریں گے۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوا تو رسے کم پڑ جائیں گے گلے بہت زیادہ ہیں‘ اگر جج آئین توڑے تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ فیصلہ ووٹ سے کرنا ہے یا سری لنکا کی طرح؟ قوم انقلاب کے لیے تیار ہے ، یہ حکومت تو فراڈیوں پر مشتمل ہے اور اس اسمبلی میں راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہیں ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی عوام کو بیوقوف سمجھتی ہے لیکن سونامی کو کوئی نہیں روک سکتا ،
سری لنکن انقلاب پاکستان میں بھی آسکتا ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے ، 86 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، فیصلے کا آغاز سورہ الشعراء سے کیا گیا ہے جب کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں ڈپٹی سپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی قرار دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے، چیف جسٹس پاکستان کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں 12 ججز نے از خود نوٹس کی سفارش کی،
سپریم کورٹ نے آئین کو مقدم رکھنے اور اسکے تحفظ کیلئے سپیکر رولنگ پر از خود نوٹس لیا، ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم ایڈوائس اور صدر مملکت نے اسمبلی توڑی، ڈپٹی سپیکر رولنگ، وزیراعظم ایڈوائس اور صدر کے اقدامات کی وجہ سے اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے۔فیصلے میں قرار دیا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی،
مبینہ بیرونی مراسلہ ایک خفیہ سفارتی دستاویز ہے، سفارتی تعلقات کے پیش نظر عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی، مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو دکھایا بھی نہیں گیا، مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا ، عدالتیں مصدقہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں نہ کہ قیاس آرائیوں پر، سفارتی مراسلے سے متعلق فیصلہ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں