میرے دوستوں نے ڈرٹی کردار ادا کیا، عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ بتا دی، جنرل فیض سے متعلق بھی اہم انکشاف

اسلام آباد (پی این آئی)سینئر صحافی جاوید چوہدری نے سابق وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی جاری کر دی ہے جس میں انہوں نے عدم اعتماد سمیت مختلف امور پر ہونے والی گفتگو سے متعلق کیئے گئے دلچسپ انکشافات سے پردہ اٹھا دیاہے ۔سینئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ میں نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے یہ خراب کیسے ہوئے ۔

 

عمران خان نے کہا کہ سب سے پہلے افغانستان کی وجہ سے یہ مسئلہ بنا ، جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی اور طالبان حکومت بننے لگی تو اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے ، میرے خیال میں اگر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ، کوئی ایسی مداخلت کر دی جس سے بین الاقوامی مسئلہ ہو گیا یا پھر وہاں پر خانہ جنگی ہو گئی تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اور شائد پاکستان پر پابندیاں بھی لگ جائیں ، لیکن دوسری طرف ایسی بات نہیں تھی اور بار بار کہا جارہاہے کہ ہم افغانستان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ہمیں اس کے اندر اپنی بنیادیں مضبوط رکھنی چاہئیں۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ جنرل فیض حمید کی وجہ سے بھی اختلاف بنا ، آرمی میں شائد یہ احساس پیدا ہوا کہ شائد میں جنرل فیض کو اگلا آرمی چیف بنانا چاہتاہوں ،جبکہ یہ بات 100 فیصد غلط تھی، میرے دماغ میں ایسا کوئی خیال نہیں تھا اور نہ ہی میں ایسا کرنا چاہتا تھا۔

 

میں ڈیڑھ سال قبل یہ فیصلہ کیسے کر سکتا تھا ، یہ محض افواہ تھی ، انہوں نے تسلیم کیا کہ شائد میرے دوستوں نے اس میں بہت ڈرٹی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ جب عدم اعتماد ہوئی تو اس وقت بھی بہت سی چیزیں سامنے آئیں ،میں نے جا کر ملاقات کی اور نیوٹرلز سے کہا کہ شہبازشریف کو آپ ہمارے اوپر مسلط کر رہے ہیں ان پر کیسز دیکھیں ، عمران خان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ آصف زرداری کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں روک دیا جاتا تھا اور کوئی بھی کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیا جاتا تھا ، میرے ہاتھ باندھ دیئے گئے تھے ۔سینئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہمارے سسٹم میں خرابی ہے بدنامی وزیراعظم برداشت کرتاہے اور اختیارات کوئی اور انجوائے کرتاہے ،جب تک یہ سسٹم ایسے چلتا رہے گا پاکستان ترقی نہیں کر سکتا ، ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم جس شخص کو بدنامی کیلئے رکھتے ہیں اختیارات بھی اسے دیں تاکہ وہ اختیارات استعمال کرے اور اگر وہ غلط ہو تو سزا بھی وہ بھگتے ۔

 

یہ بڑا عجیب سسٹم ہے ، سزا کوئی بھگتا ہے اور اختیارات کوئی اور انجوائے کرتاہے اس کی وجہ سے بھی بہت زیادہ کنفیوژن پھیلتا ہے ۔جاوید چوہدری نے بتایا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی ہی ٹیلیفون آتے تھے ؟تو عمران خان نے جواب دیا کہ آخری دور میں تو بہت زیادہ فون آتے تھے ، اتنے زیادہ فون آتے تھے کہ ہمارے اپنے لوگ بہت پریشان تھے بلکہ انہوں نے کہا کہ ہمارے وہ ارکان جو ٹوٹ کر پیپلز پارٹی کے پاس چلے گئے تھے ،22 ارکان ،ان میں سے آدھے کہتے تھے کہ ہم فون کی وجہ سے گئے تھے ، اگر آپ ہمیں واپس لینا چاہتے ہیں تو ہمیں فون کروا دیں ، ہم واپس آ جائیں گے پارٹی میں ۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں