اسلام آباد(پی این آئی)مجوزہ نیب قانون میں جرم کی تعریف تبدیل ہوگئی ہے، وہ جرم اور کرپشن نیب کے دائرہ کار میں آئیں گے جو 50 کروڑ سے زیادہ ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے نیب قانون میں متعدد ترامیم کی ہیں، جن کے نفاذ کے بعد صدر مملکت احتساب عدالت کے ججز تعینات نہیں کر سکیں گے، صدر مملکت سے ججز کی تعیناتی کا اختیار ختم کر کے وفاقی حکومت کو دے دیا گیا۔
نیب قانون میں ترامیم کابینہ سے منظوری کے بعد اب منظوری کے لیے صدر کے پاس بجھوائے جائیں گے، صدر کے دستخط نہ کرنے کی صورت میں اگلے ہفتے جوائنٹ سیشن بلایا جائے گا۔مجوزہ ترامیم کے مطابق اب اگر کوئی مجرم کسی جرم کا مرتکب پایا جائے، تو اس پر اب کوئی مالی جرمانہ نہیں ہوگا، اس سے قبل کسی کو جتنی کرپشن کا مرتکب پایا جاتا، تو کم از کم اتنا جرمانہ ادا کرنا ضروری تھا۔کوئی شخص جس علاقے کی عدالتی حدود میں ملزم پایا جائے، اسے اسی صوبے کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، اس ترمیم کا بڑا فائدہ سابق صدر آصف علی زرداری کو ہوگا، اس کی باقاعدہ منظوری کے بعد آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، مراد علی شاہ اور درجنوں دیگر افسران کے کیسز سندھ منتقل ہو جائیں گے۔اب نیب کسی جرم سے متعلقہ شخص کو ہی طلب کر سکے گا، اس سے پہلے نیب کسی بھی شخص کو کسی بھی کیس سے متعلق طلب کر سکتا تھا۔پہلے کوئی بھی شخص اگر مطلوبہ معلومات دینے میں ناکام رہتا، تو اسے 5 سال قید بامشقت سزا دی جاتی، اب ترمیم یہ کی گئی ہے کہ یہ سزا اب اس فرد کو دی جائے گی جس پر 20 لاکھ سے زائد رقم کی منتقلی کا الزام ہوگا۔اس ترمیم سے کئی بڑے تاجروں اور سیاست دانوں کے نوکر مستفید ہوں گے جن پر 10 سے 15 لاکھ روپے مختلف طریقوں سے ملک سے باہر بھجوانے کا الزام ہوتا ہے۔
کسی ایک شخص کی پلی بارگین سے اس کیس کے دوسرے افراد پر اثر نہیں پڑے گا، اب چیئرمین نیب کو ریفرنس فائل کرنے سے پہلے تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ مشاورت کے بعد کسی بھی کیس کو جزوی یا کلی طور پر ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔اس دوران اگر کسی عدالت میں کیس چل رہا ہے تو اسی طریقے سے وہ اس کیس کو ختم کرنے کا بھی کہہ سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں