لاہور (پی این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کو پنچایتی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔آرٹیکل 133 کہتا ہے کہ جب وزارت اعلیٰ کا منصب خالی ہو تو جو ا س سے پہلے وزیراعلیٰ تھا اس کو گورنر وزیراعلیٰ بننے کا کہے۔آئین کے مطابق گورنر سابق وزیراعلیٰ کو کام کرنے کا کہہ سکتا ہے۔
حمزہ شہباز تو کبھی وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہی نہیں، ان کو وزیراعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ نہیں ملے۔رن آف الیکشن ہونا باقی ہے اس دوران تو اسے کسی منصب پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔گورنر اسمبلی کا اجلاس کسی جگہ پر بھی بلا سکتا ہے۔پرویز الہیٰ ایوان اقبال جا کر اجلاس کی صدارت کر سکتے تھے۔گورنر کے لیے لازم تھا کہ وہ بزدار کو بطور وزیراعلیٰ کام کرنے کا کہتے، جہاں تک آڈیوز کا تعلق ہے تو ابھی تک لوگوں نے انہیں اہمیت نہیں دی۔پہلے مریم نواز کی آڈیو تھی کہ میری باہر تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں، کسی نے مریم بی بی سے پوچھا آپ کیا کہتی تھیں۔پھر حمزہ کی آئی کہ بچوں کرپشن بڑی اچھی چیز ہے کسی نے کوئی اثر نہیں لیا۔احسن اقبال کی آڈیو آئی کہ کرپشن کے دوران بڑی ترقی ہوتی ہے۔ان سے توایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اس قسم کا بیان دیں گے مگر اس نے یہ بیان دیا ہے۔قبل ازیں ایک بیان میں اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نیا امیدوار نامزد کرنا پڑے گا اور اگر نیا امیدوار ووٹ نہیں لے سکے گا تو گورنر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت میں چونکہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا تھا تو بدستور اسمبلی رکن رہیں گے مگر ان کا ووٹ ناکارہ ہو گیا کیونکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا ووٹ پارٹی کا ہے۔رہنما پیپلز پارٹی نے کا کہنا تھا کہ وفاق میں شہباز شریف کی حکومت دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو تحریک انصاف کے منحرف اراکین اُن کو بچا نہیں سکیں گے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں